پاکستان میں مذہبی حقوق اور عقائد کی آزاددیوں کی صورتحال
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق سال 2017 میں پاکستان میں تقریباً 19 افراد کو توہین مذہب کے جرم میں سزائے موت کے مقدمات میں نامزد کیا گیا۔ جبکہ سینکڑوں افراد توہین مذہب کے جرم میں قید مقدمات کی شنوائی کا انتظار کر رہے ہیں۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ امتیازی برتاؤ اور ان کے خلاف تعصب میں کوئی کمی نہیں آئی ہے جبکہ شدت پسند گروہوں کی جانب سے شیعہ برادری اور مزارات پر جانے والوں پر حملے کے واقعات بھی دیکھنے کو ملے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں بھی قریب قریب انہی نکات کو بیان کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ پاکستان میں متعدد افراد کو توہین مذہب کے قانون کا شکار بنایا گیا اور اقلیتوں کو اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر آپ انسانی حقوق کی ان رپورٹوں کو ماننے سے انکاری ہیں اور انہیں مغربی ایجنڈے کا حصہ سمجھتے ہیں تو آپ خود پاکستان میں گھوم پھر کر مذہبی حقوق کی پامالیوں اور عقائد کے انتخاب میں مشکلات کو دیکھ سکتے ہیں۔ کسی بھی شہر یا قصبے کی مرکزی مارکیٹ میں چلے جائیے آپ کو بڑی بڑی دکانوں پر پوسٹر آویزاں ملیں گے کہ یہاں احمدیوں سے کسی بھی قسم کا لین دین نہیں ہوتا یا یہاں احمدیوں کا آنا منع ہے۔ اب بھلے ہی آپ اپنے عقیدے کو جتنا مرضی درست جانیں لیکن کسی بھی دوسرے عقیدے سے اس بات پر کاروبار کرنے سے انکار کرنا یا دکانوں میں نہ آنے دینا پوری دنیا میں مذہبی تعصب اور امتیاز کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اسی طرح مسیحی برادری کو لے لیجئے۔ شہر میں مسیحیوں کی کسی بستی میں تشریف لے جائیے آپ کو وہاں یہ برادری معاشی استحصال کے ساتھ ساتھ ایک خوف کا شکار نظر آئے گی۔ وہ خوف یہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان کسی بھی ذاتی جھگڑے کی بنا پر ان پر توہین مذہب کا الزام لگا سکتا ہے اور نتیجتاً ان کی ساری بستی تک کو بھسم کروا سکتا ہے یا الزام کے شکار افراد کو عمر بھر جیل میں مقید کروا سکتا ہے۔ آسیہ بی بی، پطرس مسیح اور رمشہ مسیح کے کیسز اس ضمن میں مثال ہیں اور بھلے ہی آپ اس دوارے جو مرضی نظریہ رکھیں لیکن مہذب دنیا اسے مسیحی برادری کا استحصال قرار دیتی ہے۔ اسی طرح سندھ میں ہندو عورتوں سے جبری شادی کرنے کیلئے انہیں جبری طور پر مذہب تبدیل کروا کر مسلمان مذہب اختیار کرنے کے واقعات اور پھر کوئٹہ میں ہزارہ برادری کا قتل عام اور معاشی استحصال بھی سب کے سامنے ہے۔ بات صرف اقلیتوں کی ہی نہیں ہے ہمارے ہاں خود اسلام کے ماننے والے درجنوں فرقے موجود ہیں اور ہر فرقہ خود کو حق اور سچ پر جبکہ دوسرے فرقوں کو کافر اور گناہ گار تصور کرتا ہے۔
مذہبی حقوق کی پامالیوں کی وجوہات
پاکستان میں بسنے والی آبادی کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ یہ مذہبی عقیدے کے باعث خدا کی سب سے پیاری قوم ہے اور اسے دنیا بھر پر حکمرانی کرنے کیلئے اتارا گیا ہے۔ یہ مذہبی نظریہ ایک بچے کے ذہن میں اسی وقت ڈال دیا جاتا ہے جب وہ بولنے اور سننے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اس نظریے یا پیغام کو سکولوں اور کالجوں میں بار بار نصاب اور اساتذہ کے ذریعے دہرا کر مزید پختہ کر دیا جاتا ہے۔ آبادی کا زیادہ حصہ چونکہ غربت کی لکیر سے بھی نیچے رہ کر زندگی بسر کرتا ہے اس لئے یہ اپنے بچوں کو روایتی تعلیم دینے کے بجائے دینی مدارس میں بھیج دیتا ہے جہاں ان بچوں کو مفت رہائش کھانے پینے کے ساتھ ساتھ مفت مذہبی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ پاکستان میں موجود دینی مدارس مختلف دینی فرقوں کے زیر انتظام ہیں اور ان مدارس میں ہر فرقہ اپنی اپنی دینی تشریح کے نظریات اور تعلیم بچوں کو دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ان مدارس کے طلبہ نہ صرف دوسرے مذاہب اور عقیدوں کو غلط سمجھتے ہوئے ان سے نفرت کرنا شروع کر دیتے ہیں بلکہ خود اسلام کے ہی دیگر فرقوں کو بھی گنہگار اور واجب القتل سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ فعل محض دینی مدارس کے مولویوں اور وہاں کے طلبہ تک ہی محدود نہیں ہے۔ پڑھی لکھی آبادی کا زیادہ تر حصہ بھی اپنے بچوں کو اسی قسم کے نظریات کی ترویج کرتا ہے۔ بچوں کو ابتدا سے ہی تنقیدی سوچ رکھنے کی صلاحیت سے محروم رکھتے ہوئے انہیں اپنے اپنے مسلک اور فرقوں کی دینی تشریحات کی اندھی تقلید کا درس دے دیا جاتا ہے۔ اس کے باعث بچوں کے اندر ایک ایسے عقیدے کا جنم ہوتا ہے جس کے مطابق ان کا مسلک درست ہوتا ہے اور دیگر تمام فرقے گنہگار جبکہ احمدی، مسیحی اور ہزارہ برادری قابل نفرت ٹھہرتی ہے۔ یہ مذہبی اقلیتیں اس کارن مذہبی استحصال کے ساتھ ساتھ معاشی اور سماجی استحصال کا سامنا بھی کرتی ہیں۔ تعلیم کے نصاب اور مدارس میں اصلاحات لانے کیلئے آج تک ریاست پاکستان نے کبھی بھی ٹھوس اور جامع اقدامات نہیں اٹھائے ہیں۔ عقائد سے متعلق قوانین اور نصابی مواد میں تبدیلیاں لانے سے حکومتیں گھبراتی آئی ہیں۔ انہیں خوف ہوتا ہے کہ اس وجہ سے انہیں مذہبی گروہوں اور عوام کے بڑے حصے کے رد عمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ چونکہ پاکستان میں ریاست کسی بھی معاملے پر خواہ وہ سیاسی ہو یا ریاستی بیانیوں یا پھر عقائد کے متعلق ہو، اختلاف رائے رکھنے کی اجازت نہیں دیتی یا اسے اپنے لئے خطرہ سمجھتی ہے اس لئے سماج میں آج تک ایک دوسرے کے عقائد کو برابری دیتے ہوئے، اختلاف رائے کے ساتھ امن سے رہنے کا تصور پنپ ہی نہیں پایا ہے۔ ریاست کے تشکیل کردہ سیاسی اور سماجی بیانئے سے اختلاف رکھنا غداری تصور کیا جاتا ہے جبکہ مذہبی بیانئے اور دینی تشریحات سے اختلاف رکھنا سنگین گناہ اور واجب القتل جرم ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس کے باعث دینی تشریحات کو زمانہ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں رہتی ہے اور نہ ہی توہین مذہب کے قوانین پر مکالمے کی گنجائش باقی رہ پاتی ہے۔ زیادہ تر آبادی جسے اختلاف رائے کے حق سے بچپن سے ہی محروم رکھا جاتا ہے اور مذہبی نرگسیت پسندی کے نظریات کی چھتری تلے پروان چڑھایا جاتا ہے اسے معاشرے میں بسنے والی دیگر اقلیتوں کے عقائد سے نفرت کرنا اور ان کا مذہبی استحصال کرنا باعث ثواب عمل اور پیدائشی حق لگتا ہے۔ اس کے علاوہ خود ساختہ اخلاقی اقداروں کا امین بن کر دوسروں کے زندگی بسر کرنے کے طور طریقوں کو گناہ و ثواب کے پلڑے میں تولنا اور دیگر اقلیتوں کے زندگی کے طور طریقوں کو غیر اخلاقی سمجھنے کا نظریہ بھی سماج میں مذہبی حقوق کی پامالیوں کا مؤجب بنتا ہے۔ بچوں کو شروع سے ہی گھروں میں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ سماج میں بسنے والے دیگر افراد کو مذہبی عقائد کی روشنی میں مرتب اخلاقیات کی کسوٹی پر جانچا جائے۔ مغرب کو بے حیا قرار دیتے ہوئے وہاں بنیادی جبلتوں کی تسکین کی آزادیوں کو گناہ سے نتھی کر کے یہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں بھی فحاشی عریانی اور مے نوشی ہھیلانے کہ وجہ یہ قوتیں ہیں اور جو افراد یا اقلیت ان سرگرمیوں میں ملوث ہے وہ دراصل مذہب اور سماجی روایات کا دشمن ہے۔ نتیجتاً سماج میں ایک بہت بڑی خود ساختہ اخلاقی پولیس جنم لے لیتی ہے اور دیگر عقائد کی آزادیوں کو بھی اپنے عقائد کے نظریات کی رو سے سلب کر لیتی ہے۔
اس مسئلے سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے؟
مذہبی حقوق کی پاسداریوں اور عقائد کی آزادی کی جانب سفر صرف اور صرف ایک کثرت پسندانہ سماج کی تشکیل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ پاکستان میں موجود روایتی اور مذہبی تعلیم کے نظام میں فوری اصلاحات کا لانا ناگزیر ہے جن کے نتیجے میں بچے بڑے ہو کر دیگر اقلیتوں اور دنیا میں بسنے والے مختلف مذاہب کے افراد کے ساتھ پر امن طور پر جینا سیکھ سکیں۔ ریاست کو پاکستان پیینل کوڈ کے توہین مذہب کے قوانین پر نظر ثانی کیلئیے ایک صحت مند مکالمے کو فروغ دینے کے حالات پیدا کرنا ہوں گے اور ریاست کو توہین مذہب یا دیگر اقلیتوں کے عقائد کے معامللات میں پراسیکیوٹر کا کردار ادا کرنے کے بجائے اقلیتوں کی حفاظت کا کردار ادا کرنا ہو گا۔ وہ تمام بنیاد پرست گروہ اور شدت پسند جماعتیں جو احمدی، مسیحی، شیعہ یا ہزارہ برادری کے خلاف مذہبی منافرت اور نفرت پھیلاتے ہیں ان کی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے ان کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔ اخلاقی بریگیڈ کا تصور ختم کیا جانا چاہیے اور سماج میں بسنے والے ہر فرد کو اپنی مرضی اور طور طریقوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی زندگی کی نغمگیوں سے آشنا کرنے اور اس کی اہمیت سکھانے کا بندوبست کرنا ہو گا اور انہیں زندگی سے نفرت کے بجائے اسے پیار کرنا سکھانا ہو گا۔ ان کو بتانا ہو گا کہ انسان کی بنیادی جبلتوں کا اظہار یا انہیں پورا کرنا ہرگز بھی خلاف فطرت نہیں ہے۔ سماج میں بسنے والے افراد جب زندگی کی لے پر پیار امن محبت کی لے پر رقص کرنا سیکھیں گے تو وہ فکری و ذہنی طور پر آسودہ ہو کر اپنی زندگی میں مگن ہو جائیں گے اور سماج میں بسنے والے افراد کے عقائد اور اخلاقیات کو جانچنے کے عمل کیلئے نہ تو انہیں وقت میسر ہو گا اور نہ کوئی خواہش۔ اگر پھر بھی ہم سماج میں یہ تبدیلیاں لانے کو تیار نہیں ہیں تو پھر دیوار پر لکھی تحریر بہت واضح ہے جو بار بار یہ پیغام دے رہی ہے کہ جدید دنیا میں ایسے سماجوں کیلئے کوئی گنجائش موجود نہیں ہے جو ابھی بھی پتھر کے دور میں بسنا چاہتے ہیں اور اقوام متحدہ کی دی گئی شخصی مذہبی آزادیوں کو اپنی سرزمین پر اپنی ہی اقلیتوں کو انہیں فراہم کرتے ہوئے کتراتے ہیں اور ان کے مذہبی استحصال کو فروغ دیتے ہیں۔