کوالالمپور کانفرنس اور ہماری بیرونی قوتوں کے زیر تسلط خارجہ پالیسی

05:28 PM, 23 Dec, 2019

عماد ظفر
خارجہ پالیسی کی کامیابی یا  ناکامیابی دراصل منتخب  حکومتوں کی کامیابی یا ناکامیابی کہلاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں منتخب حکومتیں اپنے قابل ترین دماغوں کو خارجی امور سونپا کرتی ہیں تاکہ بیرونی دنیا سے نہ صرف اچھے تعلقات استوار کیے جائیں بلکہ طاقت کی عالمی بساط پر اپنی پوزیشن کو بھی مستحکم کیا جا سکے۔

پاکستان میں خارجہ پالیسی کون اور کہاں تشکیل دیتا ہے، یہ جاننے کیلئے کسی بھی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ اشارے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ خارجہ امور کی پالیسیوں کی تشکیل منتخب حکومتوں یا منتخب وزرائے اعظم کے پاس نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایوب کے مارشل لاء کے بعد دو منتخب وزرائے اعظم نے خارجہ پالیسی کو نادیدہ قوتوں کی گرفت سے باہر نکال کر اس کی تشکیلنو یا اس کو رفتہ رفتہ تبدیل کرنے کی کوشش کی اور دونوں کو ہی عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف دو وزرائے اعظم ایسے گزرے ہیں جنہوں نے کبھی اندرونی قوتوں اور کبھی بیرونی قوتوں کے تسلط سے خارجہ پالسی کو آزاد  کروانے کی کوشش کی اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں عوام کی اکثریت کی رائے کی جھلک دیکھنے  کے بجائے دفاعی بیانیوں کا عکس زیادہ دکھائی دیتا ہے اور اس پر ریاض اور واشنگٹن کی چھاپ بھی باآسانی دیکھی جا سکتی ہے۔

حال ہی میں ملائشیا میں اسلامی ممالک کی منعقد ہونے والی کوالالمپور کانفرنس میں پاکستان کی جانب سے جس سفارتی نااہلی کی جھلک  دکھائی گئی ہے،اس نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے عالمی طاقتوں کے زیر تسلط ہونے کے دعوؤں کی تصدیق پر مہر ثبت کر دی ہے۔

ملائشیا ترکی اور قطر یہ تین مرکزی ممالک کوالالمپور میں منعقد ہونے والی اس مسلمان ممالک کی کانفرنس کے ذریعے عہد حاضر میں عالم اسلام کو درپیش سنگین مسائل اور ان کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات کے حوالے سے سوچ و بچار کرنا چاہتے تھے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد اور ترک صدر رجب طیب اردوغان کو یہ یقین دلایا تھا کہ نہ صرف پاکستان کوالالمپور میں ہونے والی اس کانفرنس میں بھرپور شرکت کرے گا بلکہ وزیراعظم عمران خان نے اسی کانفرنس کے تناظر میں ملائشیا اور ترکی کے تعاون سے ایک ایسے نشریاتی ادارے کے قیام کا اعلان بھی کیا تھا جو کہ مسلم امہ کے مسائل کو پوری دنیا میں اجاگر کرے گا اور اسلام مخالف قوتوں کے منفی پراپیگینڈے کا بھرپور جواب  دے گا۔

غالبا خان صاحب "دیوانہ بے خودی میں بڑی بات کہہ گیا" کے مصداق ترکی اور ملائشیا کو کانفرنس میں شرکت کی یقین دہانی کے علاوہ ایسا اعلان بھی کر بیٹھے جس کو پورا کرنے کا اختیار ان کے بس میں نہیں تھا۔ خان صاحب کے ملائشیا ترکی اور قطر کی جانب اس جھکاو کو سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں نے نہ صرف ناپسندیدگی سے دیکھا بلکہ انہیں یہ یاد دلوانے کیلئے کہ بھکاریوں کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی انہیں ریاض طلب کر کے اچھے طریقے سے ان کی طبیعت صاف کر ڈالی۔


سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور عمران  خان کے درمیان گزشتہ دنوں ریاض میں ہونے والی ملاقات کے دوران کیا ہوا؟ اس کی ہلکی سی جھلک ترک صدر اردگان کے بیان سے مل گئی۔ اوردوغان کے مطابق سعودی عرب نے نہ صرف پاکستان کی بنکوں میں جمع شدہ رقم جو کہ کرنٹ اکاونٹ خسارے کو کم کرنے کیلئے رکھوائی گئی اس کو نکالنے کی بات کی بلکہ سعودی عرب میں موجود نوکری پیشہ حضرات کو بھی پاکستان واپس کرنے کا عندیہ دے دیا۔

اور یوں عمران خان نے فوری طور پر تائب ہوتے ہوئے سعودی  ولی عہد کو یقین دہانی کروا دی کہ وہ کوالالمپور کانفرنس کے قریب بھی نہیں پھٹکیں گے ۔ گو بعد ازاں ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے پاکستان کی ساکھ کی خاطر اوردغان کے بیان کی نفی کر ڈالی لیکن سمجھنے والے خوب سمجھتے ہیں کہ آخری وقت میں پاکستان نے  کوالالمپور کانفرنس سے انکار کیوں کیا۔ غالبا اب عمران خان کو سمجھ میں آ گیا ہو گا کہ دنیا  میں ہر  چیز خیرات سمجھ کر یا  مفت میں نہیں دی جاتی۔ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں نے عمران خان کی حکومت کی مدد کے عوض جو بھاری سود ان سے نکلوایا ہے اس کے بعد اب پاکستان ترکی، ملائشیا ، قطر اور ایران سے نہ صرف دور ہو گیا  ہے بلکہ ساری دنیا نے یہ تماشہ دیکھ لیا ہے کہ  پاکستان کی خارجہ پالیسی کو چند ارب ڈالروں اور قسطوں یا ادائیگی میں تاخیر کے ذریعے تیل فراہم کر کے کیسے آسانی سے اپنے تابع کیا جا سکتا ہے۔

انکل سام تو خیر  عرصہ دراز سے یہ کرتے آ رہے ہیں اب عرب ممالک بھی ہمیں ڈکٹیشن دینے لگ گئے ہیں۔ یاد رہے عمران خان صاحب جب اپوزیشن میں ہوتے تھے تو پاکستان کی غلامانہ خارجی پالیسی کا ذکر انتہائی رنجیدگی سے کیا کرتے تھے اور یہ وعدہ کیا  کرتے تھے کہ اقتدار میں آتے ہی وہ خارجہ پالیسی کو بیرونی تسلط سے آزاد کروا کر ساری دنیا میں سبز پاسپورٹ کی عزت بحال کروا دیں گے۔ سبز پاسپورٹ کی عزت تو خیر انہوں نے کیا بحال کی لیکن اس  پاسپورٹ کی اور خارجہ پالیسی  کی جو بے توقیری تحریک انصاف نے اپنے دور حکومت میں کروائی ہے ، ملکی تاریخ میں شاید  ہی کسی اور حکومت نے کرواِئی ہو۔ کشمیر بھارت ہڑپ کر گیا لیکن  پاکستان کے حصے میں اقوام متحدہ میں عمران خان کی نرگسیت پر مبنی تقریر اور عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلہ میں تنہائی کے سوا کچھ بھی نہیں آیا۔ وہ مودی جسے عمران خان نواز شریف کا  یار قرار دیکر نواز شریف کو غدار قرار دے کر قوم کو بتایا کرتے تھے کہ اس مودی کا علاج صرف ان کی سلطان راہی کی پنجابی فلموں کی بڑھکوں کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے، خان صاحب حکومت میں آنے کے بعد اسی مودی کی بھارتی انتخابات میں کامیابی کو پہلے کشمیر کے مسئلے کے حل کیلئے نیک شگن  خیال کرتے رہے بلکہ اس سے فون پر بات کرنے کیلئے بھی بیتاب رہے لیکن بے قدر مودی نے خان صاحب کی ایک فون کال تک کا جواب نہیں دیا۔ سعودی عرب جس کو نواز شریف نے صاف انکار کرتے ہوئے یمن میں اپنی فوجیں بھیجنے سے انکار کر دیا تھا اب اسی کے کہنے پر عمران خان نے اپنی آئیڈیل سیاسی شخصیت مہاتیر محمد اور پاکستان کے بہترین دوست اردوغان کو فراموش کر دیا۔

کوالالمپور میں منعقد ہونے والی اسلامی ممالک کی  کانفرنس کو سعودی عرب عالم اسلام پر اپنے قائم شدہ  تسلط کیلئے خطرہ سمجھ رہا تھا اس لیے پاکستان کو وہاں شرکت کرنے سے روک دیا گیا۔ عالم اسلام میں اس وقت ترکی اور سعودی عرب کے مابین غلبہ حاصل کرنے کی سرد جنگ جاری ہے۔ یمن تنازع اور عرب اسپرنگ کے اختلافات کے باعث قطر بھی ترکی کے ساتھ ہے جبکہ ایران سعودی عرب سے اپنے تنازع کی وجہ سے ان ممالک کے ساتھ ہے۔

سعودی شاہی خاندان نے مذہب کی تشریحات اور جہاد کو ہمیشہ سے اپنے تسلط کو برقرار رکھنے اور واشنگٹن کی ایما پر مسلمان ممالک میں پراکسی جنگوں کیلئے استعمال کیا ہے جس کے نتیجے میں مسلمان ممالک جدید تہذیب میں کوئی مثبت کردار انجام دینے کے بجائے اندرونی خلفشار میں مبتلا ہیں۔ ایسے میں کوالالمپور کانفرنس میں عالم اسلام کے مسائل کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق دیکھنے اور انہیں جدید تہذیب سے روشناس کروانے کی کاوش میں پاکستان کو وہاں موجود ہونا چائیے تھا۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت شفاف انتخابات کے نتیجے میں ملکی اور غیر ملکی قوتوں کی بیساکھیوں کی مدد کے بنا اقتدار میں آئی ہوتی تو یہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کو یہ باور کروا سکتی تھی کہ کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کرنا پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور اس کانفرنس میں پاکستان کے شریک ہونے سے عرب ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن  سیاسی انجئینرنگ کی مدد سے اقتدار میں لائی گئی جماعت اور پس پشت قوتوں کے سہارے عرب ممالک سے ملے قرضوں پر ملک چلانے والی  حکومت بھلا کیونکر آزادانہ خارجہ پالیسی مرتب کر سکتی ہے؟۔ آزادی پرواز کی ایک قیمت ہوا کرتی ہے جو پہلے بھٹو اور بعد میں نواز شریف نے ادا کی۔

عمران خان چونکہ اقتدار میں لائے ہی اس لیے گئے ہیں کہ ان کے پَر عوامی مینڈیٹ پر شب خون مارنے کے بعد کترے جا چکے ہیں اس لیے اب پاکستان کو اسی طرح سر جھکا کر کبھی انکل سام اور کبھی عرب ممالک کے بادشاہوں کے اشاروں پر  سر تسلیم کرنا ہے۔

گزشتہ حکومت کی ہمسایہ ممالک سے امن پر مبنی تعلقات اور  چین ترکی روس سمیت دیگر ممالک سے قرب پر مبنی خارجہ پالیسی کو رول بیک کیا جا چکا ہے۔ دوسری جانب ایک جانب  کوالالمپور میں شرکت کرنے والے مسلمان  ممالک جدید تہذیب کے نت نئے تقاضوں سے نبرد آزما ہونے کے نئے طریقے دریافت کرنے کے بارے میں سر جوڑ چکے ہیں اور دنیا کو یہ پیغام دے چکے ہیں کہ مسلمان ممالک اپنے مسائل خود حل کرنے کی فکری استطاعت رکھتے ہیں اور عہد حاضر میں اسلاف پرستی کے مرض میں مبتلا رہنے کے بجائے اس کو بہتر بنانے میں اپنی خدمات پیش کرنے کے مواقع ڈھونڈ رہے ہیں وہیں پاکستان میں آج بھی بحث اس بات پر جاری ہے کہ کیسے عقیدت مندی اور مذہبی مقامات کو جواز بنا کر عرب ممالک کے زیر تسلط رہتے ہوئے ان کے مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے شاہ دولے کے مزید چوہے پیدا کرنے ہیں جنہں کبھی خارجہ پالیسیوں کی باریک بینیوں اور ان کی ناکامیوں کا ادراک ہی نہ ہونے پائے اور جو اپنے ملکی مفاد اور  عربی بادشاہوں کے اقتدار کے تحفظات کے فرق میں تمیز کرنے سے ہی محروم ہوں۔

 
مزیدخبریں