یاد رہےکہ پرویز الہی کو گورنر پنجاب نے کل رات ایوان سے اعتماد کا ووٹ نہ لینے کے باعث ڈی نوٹیفائی کر دیا تھا جس کے بعد چیف سیکرٹری پنجاب نے بھی ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے وزیر اعلی کی فراغت اور پنجاب کی کابینہ کو تحلیل کرنے کا حکم جاری کر دیا تھا۔
مسلم لیگ نون کے ذرائع نے نیا دور کو بتایا کہ، 'ہمیں پتہ تھا کہ ان کے پاس پورے نمبر نہیں ہیں۔ ق لیگ کے بھی ایک دو بندے ادھر ادھر ہیں۔ اسی طرح پی ٹی آئی بھی صرف 158 لوگوں سے رابطے میں تھی۔ اس لئے گورنر نے پرویز الہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا۔ ہم نے عدم اعتماد دوسری آپشن کے تحت جمع کروائی تھی ہمیں پتہ تھا کہ اس پر ووٹنگ کی نوبت نہیں آئے گی'۔
پرویز الہی کے ڈی نوٹیفائی ہونے کے فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کے بارے میں مسلم لیگ نون پنجاب کے ایک سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ 'ہم نے سب کام، بائے دا ُبک کیا ہے۔ گورنر نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا اس لئے ہمیں پوری امید ہے کہ ہم کیس جیت جائیں گے۔ زیادہ سے زیادہ عدالت یہ کہہ سکتی ہے کہ پرویز الہی ایوان میں جا کر اعتماد کا ووٹ لیں۔ تو اس صورت میں بھی جیت ہماری ہی ہو گی کیونکہ ان کے پاس نمبرز پورے نہیں ہیں۔'
انہی رہنما سے جب عدم اعتماد کی تحریک واپس لینے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ' وہ صرف ایوان کو تحلیل سے بچانے کی ایک وجہ تھی۔ اعتماد کا ووٹ ہی اصل ٹارگٹ تھا۔ اس لئے عدم اعتماد کی تحریک کو واپس لے لیا گیا'۔
وزیراعلی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک تو واپس ہو گئی۔ لیکن ابھی سپیکر پنجاب اسمبلی اور ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں بدستور اپنی جگہ موجود ہیں۔