مگر پچھلے دس سالوں میں جب خود سے زندگی کی سختی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو اب میں یہ سوچتا ہوں کہ نہیں، میں غلط تھا۔ میں کئی ایسے غربا سے مل چکا ہوں جو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے پیسوں پہ انحصار کرتے ہیں اور واقعی میں اس ملک میں اتنے غریب لوگ ہیں کہ ان کے لئے ایک ہزار روپے بھی بہت بڑی چیز ہوتی ہے۔ اس لئے جب تک ہم ایک امیر ملک نہیں بن جاتے اس طرح کی سکیم سے یقیناً کم ہی سہی مگر کئی لوگوں کی ضرورت کچھ حد تک پوری ہو جاتی ہے اور اس کو جاری رکھنا چاہیے۔
اب تحریک انصاف نے نام بدل کے اور کچھ دیگر تبدیلیوں کے ساتھ احساس کفالت پروگرام کے نام سے ایسی ہی ایک سکیم بنائی ہے جس کا باقاعدہ آغاز وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کل لیہ میں خود کیا۔ عجب بات یہ ہے کہ اس پروگرام کو لے کے تحریک انصاف کا یہ کہنا ہے کہ یہ ان کے پاکستان کو ویلفیئر سٹیٹ بنانے میں پہلا قدم ہے۔ لیکن ویلفیئر سٹیٹ میں تو محض آبادی کا ایک چھوٹا سا حصہ ریاست سے اس قسم کی مدد مانگتا ہے جبکہ پاکستان میں تو آدھے سے زیادہ لوگ غریب ہیں یا انتہائی مشکل سے گزر بسر کرتے ہیں۔ اس کے باوجود اوپر کہی گئی باتوں کی بنیاد پر ایسی سکیموں کی تائید کرتا ہوں۔
مگر یہ بھی دیکھنا لازم ہے کہ کیا ہم ہمیشہ منگتے ہی رہیں گے؟ یہ سوال محض تحریک انصاف سے نہیں بلکہ سب حکومتوں سے ہے کیونکہ ہر حکومت ایسا یا اس سے ملتا جلتا پروگرام لاتی ہے۔
آپ کو یاد ہو گا کہ مسلم لیگ ن نے پنجاب میں 2 روپے کی روٹی والے تنور کا آغاز کیا تھا۔ میں حسن نثار صاحب کو تب کے دور میں اور اس سے کافی پہلے سے بغیر تعطل کے سنتا تھا۔ ان کی باتیں مجھے تلخ مگر مخلص لگتی تھیں، اس لئے کہا کہ اب وہ وہ والی باتیں نہیں کرتے۔ اب ان کا سارا مواد نواز شریف اور آصف علی زرداری کے گرد گھومتا ہے۔ بہرحال جب حسن نثار صاحب سے ٹی وی میں ایک شو میں یہ پوچھا گیا کہ وہ مسلم لیگ ن کے اس عمل کو کیسے دیکھتے ہیں تو حسن نثار نے یہ تاریخی جملے کہے اور ایک لمحے کے لئے شو میں خاموشی چھا گئی۔ انہوں نے کہا، ’’لوگوں کو بھکاری نہ بنائیں! لوگوں کو اس قابل بنائیں کہ روٹی بے شک بیس روپے کی ہو لیکن لوگ خریدنے کے قابل ہوں‘‘۔ ان کی اس بات میں وزن ہے۔
آخر کب تک ہم بطور قوم خیرات سے نکل کر خود کفیل نہیں بنیں گے؟ یہاں بِل گیٹس کی وہ مشہور بات یاد آ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر انسان غریب پیدا ہو تو اس میں اس کا کوئی قصور نہیں لیکن اگر آدمی غریب مرے تو اس میں صرف اور صرف اس کا قصور ہے۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن اردو کا ایک محاورہ ہے کہ ایک انار سو بیمار۔ پاکستان میں غریب مرنے والوں میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ کچھ ہو تو ان غریبوں میں سے بِل گیٹس نکلے گا نا۔ ہے کیا ہمارے پاس؟
ہم کس منہ سے دنیا کو بار بار یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان میں امن ہے؟ کیا اسی مہینے میں کوئٹہ میں دھماکے میں لوگ نہیں مرے؟ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ کوئی پاکستان آنے سے پہلے یہ حساب لگاتا ہے کہ مثال کے طور پہ ’چلو میں نے تو اسلام آباد یا گلگت جانا ہے دھماکہ تو کوئٹہ میں ہوا تھا‘؟ نہیں! جب تک اس ملک کے ہر شہر کو ہم پاکستان کا شہر نہیں سمجھتے، جب تک ہم پاکستان کے ہر شہری کے ساتھ چاہے وہ غریب ہو یا امیر ایک جیسا برتائو نہیں کرتے کوئی پاکستان نہیں آئے گا اور جب تک بزنس کمپنیاں اور سیاح پاکستان نہیں آئیں گے ترقی نہیں ہو گی۔ ترقی نہیں ہو گی تو غربت پنپتی رہے گی۔ یہاں تک کہ ایک دن ایسا آ جائے گا کہ ہم انڈیا کو بھی نہیں للکار پائیں گے اور یہی کہتے رہ جائیں گے کہ ہم تو آپ پہ حملہ نہیں کریں گے لیکن اگر آپ نے کیا تو ہم آپ کی ایسی کی تیسی کر دیں گے۔ جنگ وہی ملک جیتتا ہے جس کے پاس پیسہ زیادہ ہو۔
ہماری قوم بھی بڑی سادہ ہے۔ چند ایک بھاڑے کے ٹریول بلاگرز کی بنائی ہوئی ان ویڈیوز پہ خوش ہو جاتے ہیں جن میں یہ پاکستان کی تعریف کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا تو کام ہی یہی ہے کہ یہ آیا شوقیہ یا پیسے کمانے کی غرض سے مختلف ممالک میں جاتے ہیں۔ یہ ویڈیو انٹرنیٹ پہ لگاتے ہیں اور پھر کروڑوں لوگ ان کو دیکھتے ہیں اور ان کی اچھی خاصی کمائی ہو جاتی ہے۔ یہ لوگ سیاحت کے زمرے میں نہیں آتے۔ سیاحت کے زمرے میں وہ لوگ آتے ہیں جو بے جھجک بغیر کسی ٹینشن کے کسی ملک سیر کے لئے جائیں، جیسے لوگ ترکی یا برطانیہ جاتے ہیں۔
جب بھی یہ ویڈیو بنانے والے کسی پسماندہ علاقے جاتے ہیں، وہاں ان کو سکیورٹی دی جاتی ہے۔ یہ سکیورٹی کیوں لیتے ہیں؟ کیونکہ یہ صرف ویڈیو میں کہنے کی حد تک پاکستان کو پر امن سمجھتے ہیں، حقیقت میں نہیں۔ اور ہم ان کو سکیورٹی دیتے کیوں ہیں؟ کیونکہ اندر ہی اندر ریاست بھی خوفزدہ ہوتی ہے کہ کہیں ان کو کچھ ہو گیا تو نئی مصیبت آن پڑے گی۔
اس ناچیز کی تمام مقتدر حلقوں سے استدعا ہے کہ غریب کا سوچیں اور پاکستان کا امیج بہتر کرنے سے زیادہ حقیقت میں پاکستان میں موجود مسائل پہ توجہ دیں۔ کہیں دیر نہ ہو جائے۔