ریٹرننگ آفیسر نے لکھا کہ متعلقہ حلقوں کے پریزائڈںگ افیسرز سے جب رزلٹ جمع کرانے میں تاخیر پر سوال کیا گیا تو انہوں نے دھند کی وجہ سے دیری اور وٹس ایپ کی خرابی جیسے عام بہانے دیے۔ انہوں نے اپنے فونز کی بیٹریز کے ڈاؤن ہونے کو رزلٹ کی تصاویر نہ بھیج سکنے کا دعویٰ کیا۔
انہوں نے لکھا کہ ن لیگ کی امیدوار سیدہ نوشین افتخار کی جانب سے جو دوبارہ الیکشن کی درخواست موصول ہوئی ہے اس میں انہوں نے 23 پولنگ سٹیشنز کی بات کی ہے ان پولنگ سٹیشنز کے وہ رزلٹس جو کہ پریزائڈنگ آفیسر نے دیئے اور جو سیدہ نوشین نے فراہم کیے (فارم 45 کی شکل میں) ان میں فرق ہے۔
موازنہ یہ بتاتا ہے کہ جو فارم 45 پریزائڈنگ افیسر نے جاری کیاہے اس میں پی ٹی آئی کی امیدوار کے علاوہ دیگر کے ووٹوں میں 1500 سے زائد کی کمی ہے جبکہ پریزائڈنگ افسران کی جانب سے فراہم کردہ رزلٹس میں اتنے ہی ووٹ مسترد شدہ ووٹس میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ جبکہ لیگی امیدوار کے فراہم کردہ نتائج میں مسترد شدہ ووٹ کم ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے امیدوار نے علی اسجد ملہی نے تمام فارمز پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں کیا۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ووٹوں کے اندراج میں گڑ بڑ کی گئی ہے اور ریکارڈ ٹیمپر کیا گیا ہے جس کے بعد یہ سفارش کی جاتی ہے کہ الیکشن کمیشن ان پولنگ سٹیشنز پر دوبارہ الیکشن کرائے۔