کہتے ہیں کہ “یہ پلک جھپکتے ہی ہو گیا”۔ سوات حکومت کے ایک ترجمان نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ اگست 2022 میں شدید بارشوں کے سبب اچانک اٹھ آنے والے سیلاب کی وجہ سے خیبر پختونخواہ کے ضلع سوات میں 34 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ صرف 26 اگست ہی کو سوات کی تحصیل بحرین (سب ڈسٹرکٹ) میں 1,049 مکانات کو نقصان پہنچا۔ سیلاب کے بعد جان اور اس کے ساتھ کئی گاؤں والوں نے اپنے کھوئے ہوئے لکڑی کے ذخیرے کو بھرنے کے لئے قریبی پہاڑی جنگلات کا رخ کیا۔
زبیر تورولی جو کہ ضلع سوات کی وادیِ کالام سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک ماحولیاتی کارکن کی حیثیت سے کام کرتے ہیں، انہوں نے نومبر 2022 میں دی تھرڈ پول سے بات کرتے ہوئے کہا، "حالیہ سیلاب کے بعد سے سوات میں جنگلات پر دباؤ دگنا ہو گیا ہے لیکن حکام کی طرف سے کسی بھی قسم کی چھان بین نہیں کی جا رہی ہے۔”
ماہرین نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ جولائی اور اگست 2022 میں ملک میں مون سون کی شدید بارشوں کی وجہ سے آنے والے معمول سے زیادہ بڑے سیلاب کے بعد سے پاکستان بھر میں اسی طرح کے مناظر دیکھنے میں آئے ہیں۔ تقریباً 80 لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے، اور انہیں جلانے کی لکڑی (ایندھن کے طور پر استعمال ہونے والی لکڑی) تک محدود رسائی اور گیس کی غیر معمولی بندش کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ گیس کی سپلائی لائنوں کو نقصان پہنچا تھا۔ سیلاب سے متاثر ہونے والے بہت سے لوگوں کے پاس اپنے گھروں کو گرم رکھنے اور کھانا پکانے کے لئے ایندھن کے حصول کے لئے درخت کاٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔
بلوچستان کے سابق صوبائی وزیر عبدل رحیم زیارتول نے کہا کہ “وہ اس موسم سرما میں ان جنگلات کو کاٹ کر موسیاتی خطرات سے بچ جائیں گے لیکن کیا وہ اگلے سیلاب سے بچنے کے لئے تیار ہیں جو کہ جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے آئے گا؟” زیارتول نے دی تھرڈ پول کو بتایاکہ “ہم ان درختوں کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں، ماحول میں ان کی اہمیت انسانی جسم میں موجود پھیپھٹروں کی طرح ہےاور ہماری زندگیاں ان درختوں کی بقا پرمنحصر ہیں لہذا انہیں بچائیں ورنہ آپ کو آفات سے کوئی نہیں بچا سکتا۔”
ٹمبر مافیا موقع سے فائدہ اٹھارہا ہے سدا بہار جھاڑی یا درخت جس کے پتے نوکیلے ہوتے ہیں اوراس میں ارغوانی رنگ کےمخروطی بیر لگتے ہیں) کے جنگلات کو عالمی زمینی ورثہ تسلیم کروانے کے لئے درخواست دی ہے، جس کہ مطابق، پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں واقع زیارت کے جونیپر کے جنگلات 110,000 ہیکٹر سے زیادہ رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں، اور یہ دنیا کے دوسرے بڑے جونیپر کے جنگلات ہیں۔ کچھ درخت ان جنگلات میں ہزاروں سال پرانے ہو سکتے ہیں۔ مقامی لوگ ہمیشہ جنگلوں سے اپنے روزمرہ کے استعمال کے لئے لکڑیاں جمع کرتے ہیں۔ لیکن زیارت کے رہائشی اور ماحولیاتی کارکن محمود ترین کے مطابق، “سیلاب کے بعد لکڑیوں کےحصول کے لئے ان جنگلات پر اتنا زیادہ دباؤ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا ہے۔”
جنگلات کی کٹائی کے ماحولیاتی اثرات کی مذمت کرتے ہوئے ترین نے کہا کہ مقامی لوگوں کے پاس ایندھن کا کوئی متبادل ذریعہ نہیں ہے۔ انہوں نے دی تھرڈپول کو بتایا کہ “اگر وہ جلانے کی لکڑی کے لئے درخت نہیں کاٹتے ہیں تو وہ سردی سے مر جائیں گے۔” بلوچستان کے شہر کوئٹہ اور زیارت میں موسم سرما کے دوران درجہ حرارت اکثر صفر سے نیچے چلا جاتا ہے۔
صورت حال کو مزید خراب کرنے والا ایک عنصر غیر قانونی آراکش(درختوں کی کٹائی کرنے والے) ہیں جنہوں نے لکڑی کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے اس معاشی موقع سے ناجائز منافع کمانے کی کوشش کی۔ بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے اسسٹنٹ پروفیسر ملک اچکزئی کے مطابق، اکتوبر سے زیارت، کوئٹہ اور قلات کے شہر جلانے کی لکڑیوں سے بھر گئے جب سرد موسم کی آمد کے ساتھ ہی گیس کی بندش ہونا شروع ہوگئی۔ اچکزئی نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اکتوبر 2022 میں زیارت اور کوئٹہ میں یہ فروخت کنندگان جونیپر کے جنگلات سے گدھے پر لادے جانے والا وزن کے برابر جلانے کی لکڑی کے دو ہزار سے پچیس سو پاکستانی روپے (تقریباً نو سے گیارہ امریکی ڈالر) وصول کر رہے تھے، جبکہ سیلاب سے پہلے وہ یہی لکڑی پانچ سو سے آٹھ سو پاکستانی روپوں (تقریباً ڈھائی سے چار امریکی ڈالر) میں بیچ رہے تھے۔
زبیر تورولی نے پاکستان کے شمالی علاقے سوات میں بھی ایسی ہی صورتحال بیان کی۔ “ماضی میں ٹمبر مافیا (جلانے کی لکڑی کی خرید و فروخت سے ناجائز فائدہ اٹھانے والا کاروباری طبقہ) اتنا لالچی نہیں تھا۔ وہ بڑے درخت کاٹتے اور اس کی شاخوں اور گرے ہوئے درختوں کو پیچھے چھوڑ دیتے جس کو لوگ زیادہ تر جلانے کی لکڑی کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ لیکن اب سیلاب کےبعد ٹمبر مافیا انکو نہیں چھوڑتا، اس لئے لوگ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے کھڑے درختوں کو کاٹ دیتے ہیں جس سے جنگلات پر لکڑیوں کے حصول کے لئے دباؤ بڑھتا ہے۔”
پچھلے سال کے سیلاب کے نتیجے میں جنوب مشرقی پاکستان کے صوبہ سندھ میں بھی درختوں کا نقصان دیکھا گیا۔ سندھ کے جنگلات کے ایک فاریسٹ رینج آفیسر غلام جعفر نےدی تھرڈ پول کو بتایا کہ، “گزشتہ سال ستمبر میں آنے والے سیلاب کے بعد دریائے سندھ اور ساحلی مینگرووز میں دریا کے کنارے واقع جنگلات کی آراکشی(درختوں کی کٹائی) تیز ہوگئی، کیونکہ وہ لوگ بھی جو پہلے گیس استعمال کرتے تھے، اب وہ جلانے کی لکڑی پر انحصار کرتے ہیں۔”
ایندھن کی لکڑی پاکستان کی ضرورت
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے 2018 کے ایک مطالعے کے مطابق، جس میں اقوام متحدہ کی تنظیم براۓ خوراک اور زراعت کا حوالہ دیا ہے کہ اندازً “پاکستان میں استعمال ہونے والی تمام لکڑی کا 72 فیصد ایندھن کی لکڑی کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔” اسی مطالعے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں تقریباً اکیاون لاکھ افراد کو بجلی کی رسائی حاصل نہیں ہے، جب کہ 2022 میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نے رپورٹ کیا کہ پاکستان میں 78 فیصد گھرانوں کو گیس تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
پاکستان کا اقتصادی سروے 2021-22 نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان میں جنگلات کے رقبے کے نقصان کے اہم محرکوں میں سے عام استعمال کی لکڑی اور ایندھن کی لکڑی نکالنا ہے۔ محکمہ جنگلات سندھ کے مطابق، صوبے میں ایندھن کی لکڑی کی طلب تقریباًچونسٹھ لاکھ مکعب میٹر ہے، جب کہ مسلسل فراہمی صرف سولا لاکھ اسیّ ہزارمکعب میٹر کے قریب ہے، جس کی وجہ سے طلب اور رسد کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔
پاکستان کے ہمالیہ میں جنگلات کی کٹائی (بشمول پاکستان کے زیر انتظام کشمیر، خیبرپختونخواہ اور گلگت بلتستان) پر ایک 2016 کا مطالعہ نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جنگلات کی کٹائی کا اہم محرک ایندھن کی لکڑی کی طلب ہے، اور لکڑی کی یہی طلب پہاڑی صوبے پختونخواہ میں جنگلات کی کٹائی میں ایک بڑی حصہ دار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تجارتی مقاصد کے لئے لکڑی کی کٹائی اور عسکریت پسندانہ سرگرمیوں نے بھی اپنا حصّہ ڈالا ہے۔
پاکستان کے جنگلات کو درپیش پیچیدہ خطرات بڑھتی ہوئی آبادی اور جلانے کی لکڑی جیسے جنگلاتی وسائل پر انحصار پاکستان کے ختم ہوتے جنگلاتی رقبے کے لئے خطرہ ہے، جو مسلسل بڑھ رہا ہے۔
خیبرپختونخواہ کے محکمہ جنگلات کی ماحولیات اور جنگلی حیات کے ایک سینئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی تھرڈ پول کو بتایا کہ اس پہاڑی صوبے میں غیر منصوبہ بند شہرکاری اور غیر منظم چراگاہ کے میدان جنگلات کو بہت زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اہلکار نے کہا کہ 2022 کے سیلاب کے بعد نجی ملکیت کے جنگلات میں جنگلات کی کٹائی کی شرح دوگنی ہو گئی ہے۔ اہلکار نے مزید کہا کہ سرکاری جنگلات میں درخت کاٹنے پر پابندی کا مطلب ہے کہ دباؤ کہیں اور مرکوز ہے۔ اور اگرچہ سرکاری جنگلات میں تعمیرات پر پابندی ہے، سیاحت کے شعبے کو وسعت دینے کے لئے ملحقہ نجی علاقوں میں جنگلات کی کٹائی سرکاری جنگلات تک پھیل گئی ہے۔
پاکستان کی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ پاکستان میں جنگلات کے خاتمے کی ایک بڑی وجہ درختوں کی غیر قانونی کٹائی ہے۔ نومبر 2022 میں بات کرتے ہوئے رحمان نے کہا کہ صوبائی حکومتیں اٹھارویں آئینی ترمیمی ایکٹ 2010 کے تحت جنگلات کے انتظام کی ذمہ دار ہیں۔
پشاور یونیورسٹی کے ماہر عمرانیات ظفر خان نے زور دیا کہ پاکستان میں جنگلات کی کٹائی کے ملک کے لوگوں پر سنگین سماجی، اقتصادی اور ماحولیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خان نےدی تھرڈ پول کو بتایا کہ “حکومت کو اس حقیقت کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ایک بار جب یہ قلیل جنگلات ختم ہو جائیں گے تو، [وسائل پر تنازعہ] نہ صرف نازک خطے میں امن کو خطرے میں ڈالے گا بلکہ لاکھوں لوگوں کے وجود کو بھی خطرہ لاحق ہو گا۔” لیکن ایندھن کے لئے لکڑی کے غیر تحفظ پسندانہ استعمال کو حل کرنا ایک پیچیدہ کام ہے۔ مصنف اور ماہر ماحولیات سلطانِ روم نے کہا، "قوانین کے یک طرفہ نفاذ اور متبادل فراہم کیے بغیر درختوں کی کٹائی پر پابندی لگانے سے جنگلات کی کٹائی نہیں رکی اور نہ ہی رکے گی۔”
اکتوبر 2022 میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے رحمان نے زور دیا کہ “جو لوگ لکڑی کے لئے جنگلات کاٹتے ہیں انہیں گرفتار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان کے پاس سردیوں میں اپنے گھروں میں کھانا پکانے اورگھروں کو گرم رکھنے کے لئے کوئی اور حل نہیں ہوتا۔