جاوید اختر صاحب! آپ کو عزت راس نہیں آئی، ہم معذرت خواہ ہیں

03:44 PM, 23 Feb, 2023

عظیم بٹ
دنیا اور معاشروں کی سوچ اس قدر تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے کہ پرانے کند ذہنوں کی جگہ اب معاشرے کی تباہی و بربادی کا سبب بن رہی ہے۔ بزرگوں اور بڑوں کا احترام اپنی جگہ مگر ان کی بوسیدہ سوچ اور دماغی توازن کی خرابی اب موجودہ معاشرے میں دنیا اور نوجوان نسل کیلئے خطرناک بنتی جا رہی ہے۔ بعض اوقات عمر میں بڑے افراد کو معزز صرف اس لئے بنا دیا جاتا ہے کیونکہ صرف ان کی عمر ہم سے زیادہ ہے اور انہوں نے ہم سے زیادہ عرصہ اس جہان خراب میں گزارا ہے حالانکہ وقت کا زیادہ گزارنا اور عمر کا بڑھ جانا کوئی معرکہ نہیں بلکہ قدرتی امر ہے۔ انسان بڑا اور معزز اپنے کردار اور سوچ سے بنتا ہے نا کہ اپنی عمر سے۔

حال ہی میں فیض فیسٹیول میں جہاں بہت سے افراد جن کا تعلق ادب سے تھا، ان کو بلایا گیا اور کئی بار کی طرح اس بار بھی بھارتی لیکھک (رائٹر) جاوید اختر صاحب کو بھی بلایا گیا جہاں پر پاکستانیوں نے اپنی تربیت اور مہمان نوازی کے خوب جوہر دکھائے اور جاوید اختر صاحب کو بلا مبالغہ آرائی سر آنکھوں پر بٹھایا۔ مگر اس کا صلہ یہ ملا کہ جاوید اختر صاحب نے ادب کی محفل میں بیٹھ کر بد اخلاقی کی حدیں پار کر دیں۔ جہاں تک ان کے شکایت کرنے کا معاملہ ہے کہ ہم نے لتا کے فنکشن کیوں نہیں کروائے جبکہ نصرت صاحب وغیرہ کے فنکشن ہندوستان میں ہوئے وہ اپنی جگہ قابل قبول ہے حالانکہ حقائق کے لحاظ سے یہ بات بھی درست نہیں کہ ہم نے ہندوستانیوں کے پاکستان میں فنکشن نہیں کروائے کیونکہ جب بھی کبھی ہندوستانی آرٹسٹ پاکستان آیا اس کو جو عزت یہاں ملی وہ واپس جا کر بھی اس کا معترف رہا۔ جوہی چاولا ہوں یا رضا مراد صاحب، سوارا بھاسکر ہوں یا اوم پوری صاحب یا دیگر پنجابی گلوکار اور اداکار۔۔۔ لہٰذا جاوید صاحب کو اپنے حقائق درست کرنے کی ضرورت ہے۔

زیادہ افسوس والی بات یہ تھی کہ انہوں نے ممبئی حملوں کا الزام پاکستان پر ٹھہرایا۔ یہاں مدعا یہ نہیں کہ اس میں پاکستان ملوث تھا کہ نہیں یا ہمارے کسی عہدیدار نے کبھی اس طرح کا بیان دیا کہ نہیں، مدعا یہ تھا کہ یہ جگہ اور موقع اس بات کا نہیں تھا۔ آپ کو ادب کیلئے بلایا گیا تھا، شاعر کے طور پر بلایا گیا تھا، یہاں نفرتوں کو بڑھاوا دینے کیلئے نہیں۔ اس حوالے سے سوشل ایکٹیوسٹ حاشر ابن ارشاد نے بڑا کمال تجزیہ کیا کہ جاوید اختر کی شاعروں میں بھی کیا ہی حیثیت ہے۔ انہوں نے ایک جگہ لکھا کہ مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جاوید اختر صاحب ایک ذہین آدمی ہیں، حاضر جواب ہیں، گفتگو کا ملکہ بھی رکھتے ہیں۔ میں ان کے فلسفہ زندگی سے بھی اپنے آپ کو متفق پاتا ہوں۔ یہ سب اپنی جگہ مگر مجھے اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ وہ کافی اوسط درجے کے شاعر ہیں۔

منیر، فیض، ناصر، مجید، راشد اور فراز کے ملک میں اب بھی ان سے بہتر شاعر درجنوں نہیں، سینکڑوں کی تعداد میں ہیں پر ایک شاعر کی حیثیت سے ان کی جو تحسین کی جا رہی ہے، جس طرح فیض میلے میں انہیں دیوتا کی مانند سنگھاسن پر بٹھایا گیا اور جس طرح ان کے بے شمار مداح ان پر صدقے واری جا رہے ہیں، وہ محض بالی ووڈ میں ان کے سیلبرٹی سٹیٹس کی وجہ سے ہے جس کا بنیادی جوہر ان کا پہلے ایک کامیاب فلم نویس ہونا اور دوسرا اندھوں میں کانا راجہ کے مصداق ایک اوسط سے بہتر فلمی گانوں کا لیکھک ہونا رہا ہے۔ فلمی گیتوں سے باہر یہ مداح ان کی ایک نظم اور ایک غزل نہیں سنا سکتے، اس میں بھی مجھے کوئی شک نہیں ہے۔

جاوید صاحب کا خیال کیجیے، ان کی اچھی میزبانی بھی کیجیے، ادبی میلوں میں ان کی گفتگو بھی کروائیے۔ پر خدارا انہیں خدائے سخن بنا کر بالی ووڈ سے اپنی ازلی مرعوبیت کا ثبوت مت دیجیے۔

بات بھی درست ہے کیونکہ جاوید صاحب کا بالی ووڈ کا کام اگر مائنس کر دیا جائے تو 90 فیصد سے زائد عوام ان کو جانتی بھی نا ہوتی مگر کیا کریں ہم تو باولے ہیں، ہر بار سفید بال اور عمر کے زیادہ ہونے کو معزز بنا لیتے ہیں۔

جیسا میں نے پہلے بتایا کہ جو شکایت انہوں نے لتا جی اور دیگر کے حوالے سے کی وہ بھی حقائق سے برعکس تھی، وہیں ممبئی حملوں والی بات بھی حقائق کے منافی تھی۔ کلبھوشن یادیو آج بھی پاکستان کی جیل میں سڑ رہا ہے اور وہ یہاں کسی درگاہ پر چادر چڑھانے نہیں آیا تھا بلکہ بلوچستان میں ہندوستان کے مکروہ اور گھٹیا کردار کو نبھانے آیا تھا۔ وہیں ابھینندن یہاں جہاز لے کر کوئی قلفی کھانے نہیں آیا تھا جس کو مار مار کر ان کے حوالے کیا گیا تھا۔ لہٰذا اپنے گریبان میں جھانکیں اور انداز پر نظرثانی کریں۔ عزت کریں اور کروائیں اور کچھ نہیں تو ہماری محبت اور میزبانی کا ہی خیال کر لیجئے۔
مزیدخبریں