ان حلقوں کے مطابق عمران خان ذہنی طور قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے تیار ہو چکے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ انہیں لانے والے انہیں ایسا کرنے دیں گے۔ جنہوں نے بدنامی مول کر انہیں وزیراعظم کے منصب پر بٹھایا ہے۔
آج کل اسلام آباد میں دل جلے "رل تو گئے ہیں پر چس بڑی آئی ہے" والا گانا گنگنا رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ لاڈلے کو اقتدار میں لانا جمہوریت سے نفرت تھی یا لاڈلے کے لاروں نے انہیں بیوقوف بنایا؟ دعوے کیے گئے تھے کہ جس دن خان نے وزیراعظم کا حلف اٹھایا شام تک دو سو ارب ڈالر قومی خزانے میں آ جائیں گے۔ ڈیڑھ سال ہوا ہے، دو سو ارب ڈالر تو نہیں آئے مگر دو سو عرب ضرور آئے۔ جو یہاں سے بن سنور کر ہمارے دائمی دشمن کی طرف روانہ ہوئے۔ خان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ خودکشی کریں گے مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ مگر ہوا یہ کہ ملک کی معیشت ہی آئی ایم ایف کے نمائندوں کے حوالے کر دی گئی۔
کل دوپہر اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب میں دوستوں سے گپ شپ ہو رہی تھی کہ ایک معتبر انگریزی اخبار کے کامرس رپورٹر آئے۔ سلام دعا کرنے کے بجائے بلند آواز میں کہنے لگے کہ مبارک ہو اگلے سال راول ڈیم سے بحری جہاز پوری دنیا میں جائیں گے۔ ان کی رفتار بجلی کی طرح ہو گی۔ ابھی آپ نے چائے کا کپ خالی نہیں کیا ہو گا کہ وہ دبئی پہنچ جائیں گے۔ ناشتے کے آخری نوالے تک آپ لندن پہنچ جائیں گے۔ دوپہر کا کھانا آپ واشنگٹن کھائیں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت کے احساس سفر کارڈ پر آپ مفت دنیا کی سیر کر سکتے ہیں۔ مگر بُرا ہو اعجاز احمد کا۔ انہوں نے بیچ میں ٹانگ اڑاتے ہوئے کہا چھوڑو بہت دیکھے، مگر آج تم نے حد ہی کر دی ہے۔
کامرس رپورٹر اپنے مؤقف پر اڑا رہا، کہنے لگا اگر جرمنی اور جاپان کی سرحدیں مل سکتی ہیں۔ کے پی کے میں پانی کے کنوئیں سے گیس نکل سکتی ہے، جس پر سارے گاؤں کا کھانا پک سکتا ہے، ملک میں 6 موسم ہو سکتے ہیں۔ ایک رات میں قومی خزانے میں دو سو ارب ڈالر آ سکتے ہیں تو راول ڈیم سے برق رفتار بحری جہاز کیوں نہیں چل سکتے؟
جب سب دوست ہنس پڑے تو کامرس رپورٹر نے کہا تبدیلی کے جھانسے میں جمہوریت کی جس بے رحمی سے آبرو ریزی کی گئی ہے اس کا کسی کو احساس ہے۔ معاف کیجیے گا صرف سندھ تبدیلی کے جھانسے میں نہیں آیا۔ میں نے پوچھا کہ مذاق بہت ہو چکی یار یہ بتاؤ ہونے کیا جا رہا ہے؟ خبر تو یہ ہے کہ انہیں لانے والے پشیمان ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے اشرافیہ کے دل پسند بھی لاڈلے سے راہیں جدا کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے کسی کی رضا سے فیصلہ کیا ہے، ممکن ہے ملک کی صورتحال دیکھ کر جمہوریت کو آزاد کیا جائے۔ ملک کی بقا بھی اس میں ہے، ایمانداری کی بات یہ ہے کہ ملک باقاعدہ نالائقوں کے حوالے کیا گیا تھا، اس ملک کی معیشت کے رکھوالے وہ بن چکے ہیں جن کے ہاتھوں مصر کی معیشت ڈوب چکی تھی۔
آج یہاں عام آدمی کیلئے سبزی دال خریدنا مشکل بن چکا ہے، روکھی روٹی کھانے کے لئے آٹا دستیاب نہیں ہے۔ سفید پوشوں کے پاس ایک بھرم تھا، تبدیلی سرکار نے وہ بھی چھین لیا ہے۔ کہنے لگا بچت جمہوریت کی آزادی میں ہے۔ بس بلاول بھٹو زرداری کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہ کی جائیں۔ ان کی دنیا میں ساکھ ہے صاحب۔ وہ دنیا کی سب سے بڑی اور لائق احترام رہنما کے بیٹے ہیں۔ کرشمہ ساز قیادت کے جانشین ہیں۔