صاحبو! کل گزری شام کا ذکر ہے کہ میاں محمد بخش کا کلام گجرات کے نواح کی سریلی آواز احسان اللہ وڑائچ اور ہمنواؤں کے طفیل کان پڑا تھا؛
اُٹھ دلا چل ڈھونڈھن چلیے گھر نئیں سجن ملدے
باجھ تکلیفوں ملدے نئیوں جیہڑے نیں محرم دل دے
ہمیں بے اختیار اپنے سجن میجر قیصر محمود یاد آئے۔ میجر صاحب ہیں تو ہم سے ایک کورس سینیئر مگر اپنی یارباش طبیعت کے سبب ہمارے ہم نوا اور نوشہرہ و کھاریاں میں ہمارے ہم پیالہ و ہم نوالہ رہے۔ ان کے ساتھ گزرے وقت کی حسین یادوں کے لیے تو ایک علیحدہ دفتر چاہئیے۔ فی الوقت جی ٹی روڈ اور سوہاوہ کی طرف پلٹتے ہیں۔
تو صاحبو! گئے وقتوں کا ذکر ہے ہم اور میجر قیصر دل کے ہاتھوں بے چین ہو کر گھر سے باہر نکل تو آئے تھے مگر ایک تازہ بہ تازہ ریٹائرڈ اور ایک مائل بہ ریٹائرمنٹ میجروں کی پہنچ اور کہاں ہونی تھی۔ راولپنڈی سے نکلے تو سوہاوہ سے کچھ پہلے اس بغلی راستے میں جا اٹکے جو ایک سلطان کے مزار کو جاتا تھا جس کےنام پر پاک فوج کا ایک میزائل پروگرام ہے۔ جی ہاں وہی 'لئو جی غوری آیا فیر'۔
سوہاوہ سے نکلتی سنسان سڑک ہمیں دھمیاک کے ویرانے میں لے آتی ہے جہاں ہمارے سلطان کا ایک جدید طرز پر بنا مزار آنے والوں کا استقبال کرتا ہے۔ پہلی ہی نظر میں اندازہ ہو جاتا ہے کہ موجودہ مزار حال ہی کی کارستانی ہے۔
مزار کے بیرونی احاطے میں سنگِ مرمر کی سِل پر کندہ ایک تعارفی تحریر ہمیں غور افغانستان کے معز الدّین محمد ابنِ سام المعروف شہاب الدین سے ملاتی ہے۔ جذبات کی رو میں بہتی یہ تحریر ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارے سلطان نے پانی پت کے پاس تھانیسر کے میدانِ کارزار میں پرتھوی راج چوہان اور دوسرے راجپوت راجاؤں کی فوج کو 1192 عیسوی میں شکستِ فاش دے دی اور اس عظیم الشان فتح نے مسلمانوں کو ہندوستان کا مالک بنا دیا۔
یہاں ہمارے گرو سلمان رشید ایک توجہ دلاؤ نوٹس پر ہمیں آگاہ کرتے ہیں کہ ہندوستان کے انہی راجپوتوں کے ہاتھوں پہلی لڑائی میں شہاب الدین کی عظیم الشان شکست اور پسپائی کے بارے میں ہمیں کوئی نہیں بتائے گا۔ راجپوت لڑائی بھی اصول پر لڑتے ہیں۔ شہاب الدین کی میدانِ جنگ سے پسپا ہوتی کٹی پھٹی فوج کا پیچھا کرنے پر انہوں نے غور کے سلطان کو ایک آن کے ساتھ میدانِ جنگ سے لوٹ جانے دیا کہ اگلی لڑائی کسی اور دن پہ اٹھا رکھنے کا حیلہ تو ہو۔
سنگِ مرمر کی اسی تحریر سے ہمیں خبر ملتی ہے کہ دھمیاک کے اس مقام پر سلطان شہاب الدین کو اپنے تین محافظوں سمیت ایک سازش کے ذریعے قتل کر دیا گیا تھا۔ تھوڑا ہٹ کر ایک طرف کو سائبان تلے ساتھ ساتھ تین قبریں ہمارے محافظوں کی ہیں۔ یہاں سے ہو کر آپ مزار میں داخل ہوں تو لگتا ہے کسی دربار میں آ گئے ہیں جہاں عُرس ہوا ہی چاہتا ہے۔ سامنے ایک سبز غلاف سے ڈھکی قبر ہمارے سلطان کی ہے۔
2014 کی سہ پہر جب ہم اور میجر قیصر نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے تو ہمارا خیال تھا کہ ہم شہاب الدین غوری کی قبر پر کھڑے ہیں۔ دعا کرتے سمے آپ کنکھیوں سے کتبے کو دیکھتے ہیں تو فارسی میں ایک عبارت آپ کو متوجہ کرتی ہے؛
شہادت ملک بحر و بر معز الدین
کز ابتدائے جہاں شہ چو اونیا مدیک
سیوم ز غرہ شعبان بہ سال شش صد و دو
فتاد ور رہ غزنین بہ منزل دمیک
خلاصہ اس بیان کا یہ ہے کہ ہمارے سلطانِ عالی شان سنہ 602 ہجری میں شعبان کی تیسری تاریخ کو غزنی جاتے ہوئے دھمیاک کے مقام پر سورگباشی ہوئے۔
مزے کی بات یہ کہ یہ سطریں طبقاتِ ناصری سے حرف بہ حرف عبارت ہیں۔ منہاج سراج جوزجانی کی تیرھویں صدی کی تالیف کردہ طبقاتِ ناصری افغانستان کے غوری حکرانوں سے متعلق ایک قابلِ اعتبار دستاویز ہے۔ طبقات ہمیں بتاتی ہے کہ سلطان معزالدین محمد ابن سام جسے ہم شہاب الدین غوری کے نام سے جانتے ہیں، نے شمالی ہندوستان پر اپنے قدم جما لیے تھے۔ 1186 عیسوی میں لاہور پر قابض ہونے والے معزالدین نے ہندوستانی راجپوتوں کی فوج کے ساتھ پہلی لڑائی میں منہ کی کھائی۔
یہ سپاہ 1192 میں جب پلٹ کر حملہ آور ہوئی تو پرتھوی راج چوہان سمیت راجپوت لشکر کو دھول چٹا کر ہندوستان کی دہلیز پار کر گئی۔ جوزجانی ہمیں بتاتا ہے کہ 602 ہجری میں سلطان جب افغانستان کو پلٹتا غزنی کا مسافر تھا تو یہاں دھمیاک کے عارضی پڑاؤ میں ملحدین کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔ یہ ملحدین اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھنے والے مسلمان تھے جنہیں دوسرے فرقوں کے مسلمان مرتد گردانتے تھے۔
اب یہاں جامع التواریخ کہتی ہے کہ شہاب الدین کے قتل کی سازش خوارزم کے سلطان نے فخر الدین رازی کے ساتھ مل کر تیار کی۔ کچھ اور لوگوں کا خیال ہے کہ پوٹھوہار کے گکھڑوں نے موقع ملنے پر سلطان سے ایک پرانا حساب بے باق کر لیا۔ سلطان کے قاتل کون تھے یہ بحث ہماری آج کی کہانی کا موضوع نہیں ہے۔ ہمارے مطلب کی چیز اگلے کچھ صفحوں کی دوری پر طبقاتِ ناصری میں ہمیں ملتی ہے۔
طبقات ہمیں بتاتی ہے کہ سلطان کی میت، شاہی خزانے کے صندوقوں کے ساتھ دھمیاک سے غزنی روانہ کر دی گئی تھی۔ شہاب الدین کے جسم کے چاک سی دیے گئے اور اس کی لاش کو کپڑے سے ڈھانپ کر اُٹھایا اور لے جایا گیا اور یہ افواہ اڑا دی گئی کہ سلطان دورانِ سفر بیمار پڑ گیا ہے۔ غزنی پہنچنے تک سلطان کا قتل راز ہی رہا۔
ہمارے داستان گو سلمان رشید اپنے منفرد رسیلے انداز میں بتاتے ہیں کہ پاڑہ چنار سے پیواڑ کوتل تک ایک پہاڑی درہ پاکستان سے افغانستان کو نکلتا ہے۔ اسی درے پرشلوزان کے راستے شہاب الدین کی میت اپنے لشکر کے ساتھ افغانستان کے سرحدی صوبے پکتیا سے ہوتی غزنی کے راستے پر رواں دواں تھی۔ سلطان کے قابلِ بھروسہ جرنیل تاج الدین یلدوز نے شہاب الدین غوری کی تدفین غزنی میں سلطان کی بیٹی کی قبر کے پہلو میں کروائی۔
صاحبو! اگر ہمارے سلطان کا مدفن غزنی میں ہے تو دھمیاک میں کھڑے ایک تازہ مزار میں وہ قبر کس کی ہے؟ گئے وقتوں کی اس سہ پہر ہم اور میجر قیصر نے جس کے سرہانے کھڑے ہو کر فاتحہ کو ہاتھ اُٹھائے تھے۔ صاحبو اسی قبر کے کتبے کی پچھلی طرف ایک جنرل صاحب کا نام بھی کندہ ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ دھمیاک کے ایک ٹیلے پر کھڑی ان قدیمی قبروں پر جنرل صاحب کے دماغ کی اختراع پہ کہانی ایک نئے سرے سے کہی گئی۔
دھمیاک کا مزار اللہ بخشے ہمارے افسانوی شہرت رکھنے والے نیوکلیئر سائنسدان کی زیرِ سرپرستی تعمیر ہوا۔ مزار کے ساتھ ہی ایک چبوترے پر فوجی کیموفلاژ میں رنگی ہمارے غوری میزائل کی نقل بمطابق اصل اپنی بہار دکھا رہی ہے۔
جس ترک جنرل کے نام پر ہم اپنے فوجی اسلحے کو معنون کرتے ہیں وہ اس دھرتی پر افغانستان سے وارد ہوا تھا اور اس کی لاش بھی ہمارے مغربی ہمسائے کے شہر غزنی کو ہی لوٹا دی گئی تھی۔ جس عالیشان مقبرے پر ہمارا غوری میزائل دست بستہ حاضر ہے ہمارے سلطان کا جسدِ خاکی یکسر غائب۔
اس سبز غلاف میں لپٹی لحد میں کیا ہے، ایک پادشاہی جسم کی انتڑیاں اور آلائشیں یا پھر دھمیاک میں ایک دھوکہ! یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مگر وہ ہرگز نہیں ہے جس کا دعویٰ کتبے کی پچھلی طرف کو کندہ میجر جنرل شیر علی ہلالِ جرات کی ذاتی تصنیف کردہ غزل کا مقطع کرتا ہے؛ 'وہ غازی' دفن ہے اسی مٹی کے ڈھیر میں
وے بُلھیا اساں مرنا ناہیں
گور پیا کوئی ہور، گور پیا کوئی ہور
اس سٹوری میں شامل تصاویر وسیب ایکسپلوررز کے ڈاکٹر سید مزمل حسین کی عنایت کردہ ہیں۔