'نریندر مودی رام مندر کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گے'

بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے اس تقریب کا مکمل بائیکاٹ کیا۔ ناصرف بھارت کے اندر بلکہ بیرون ملک مقیم مبصرین بھی سمجھتے ہیں کہ چونکہ اس سال انتخابات ہونے ہیں تو نریندر مودی نے رام مندر کا افتتاح کر کے اس سال ہونے والے انتخابات کے لیے الیکشن مہم کا آغاز کیا ہے۔

07:29 PM, 23 Jan, 2024

نیوز ڈیسک
Read more!

جب کوئی ریاست مذہب کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے تو وہاں بگاڑ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی رام مندر کے افتتاح کو آئندہ انتخابات میں سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گے۔ یہ کہنا ہے سینیئر صحافی کامران یوسف کا۔

یوٹیوب پر حالیہ وی-لاگ میں کامران یوسف نے بتایا کہ پیر کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اترپردیش کے تاریخی شہر ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح کیا ہے۔ یہ مندر عین اسی جگہ تعمیر کیا گیا ہے جہاں 6 دسمبر 1992 تک تاریخی بابری مسجد ہوا کرتی تھی۔ ہندو انتہا پسندوں نے اس مسجد کو مسمار کر دیا تھا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بہت بڑی تقریب میں مندر کا افتتاح کیا جس میں بالی ووڈ سٹارز، کرکٹرز اور اہم شخصیات سمیت ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ تمام بھارتی نیوز چینلز پر اس تقریب سے متعلق خصوصی ٹرانسمیشنز چلائی گئیں۔

صحافی نے کہا کہ بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے اس تقریب کا مکمل بائیکاٹ کیا۔ ناصرف بھارت کے اندر بلکہ بیرون ملک مقیم مبصرین بھی سمجھتے ہیں کہ چونکہ اس سال انتخابات ہونے ہیں تو نریندر مودی نے رام مندر کا افتتاح کر کے اس سال ہونے والے انتخابات کے لیے الیکشن مہم کا آغاز کیا ہے۔ بھارت کی آبادی لگ بھگ ڈیڑھ ارب ہے اور اس میں 80 فیصد کے قریب لوگ ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہندوؤں کے لیے رام مندر کا افتتاح ہونا یقینی طور پر ان کی ایک دیرینہ خواہش کی تکمیل ہے۔ بھارتی وزیر اعظم اس کو آئندہ انتخابات میں سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گے۔

افتتاحی تقریب میں سٹیج پر موجود افراد میں یو پی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نمایاں تھے جنہیں نریندر مودی کے جاں نشین کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اگر نریندر مودی سخت مؤقف رکھتے ہیں اور آر ایس ایس کے بہت قریب ہیں تو یوگی آدتیہ ناتھ ان سے 10 قدم آگے ہیں۔ ان کے ساتھ آر ایس ایس، جو بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) کو نظریاتی اساس فراہم کرتی ہے، کے سربراہ ڈاکٹر موہن بھگوت بیٹھے تھے۔ ان کی سٹیج پر موجودگی ہندو آئیڈیالوجی کے غلبے کو ظاہر کر رہی تھی۔ وزیر اعظم نریندر مودی، یوگی آدتیہ ناتھ اور ڈاکٹر موہن بھگوت کی جانب سے کی جانے والی تقاریر میں بھی بارہا ماضی میں مسلمان حکمرانوں کی جانب سے قبضے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ آج تاریخ کو درست کر دیا گیا ہے۔ ہندومت کے پیروکاروں کو 500 سال تک اس دن کے لیے انتظار کرنا پڑا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

صحافی نے بتایا 15ویں صدی میں جب برصغیر پاک و ہند میں مسلمان مغل بادشاہوں کی حکومت تھی تب بابری مسجد بنائی گئی۔ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب ایودھیا کے ہندوؤں نے دعویٰ کیا کہ یہ ان کے بھگوان رام کی پیدائش کا مقام تھا اور اس جگہ پر 500 سال پہلے رام مندر موجود تھا جسے مسلمان حکمرانوں نے مسمار کر کے اس کی جگہ بابری مسجد بنائی تھی۔ 2019 میں بھارت کی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں محکمہ آرکیالوجی کی رپورٹ کی بنیاد پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کو رام مندر کی تعمیر کی اجازت دے دی تھی۔ آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ بابری مسجد کی بنیادوں میں ایسے سٹرکچر کے شواہد ملے ہیں جو مساجد کی تعمیرات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں مسجد کے لیے ایودھیا سے باہر 5 ایکڑ زمین الاٹ کرنے کا حکم بھی دیا۔ کہا جاتا ہے کہ زمین اس جگہ پر دی گئی جو شہر سے بہت دور ہے۔ وہاں کوئی سڑک ہے اور نا ہی انفراسٹرکچر۔ موجودہ حالات میں وہاں مسجد کی تعمیر ناممکن بات ہے۔

صحافی نے کہا کہ غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایودھیا کی آبادی 30 لاکھ کے لگ بھگ ہے جس میں سے 5 لاکھ مسلمان ہیں۔ جہاں ہندومت کے پیروکار رام مندر کے افتتاح پر جشن منا رہے ہیں وہیں پورے بھارت کے مسلمان خوف کا شکار ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے لیے مشکلات بڑھتی جائیں گی۔ اس صورت حال پر پاکستان کی جانب سے بھی ردعمل سامنے آیا ہے جس میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اور اس کے افتتاح کی مذمت کی گئی ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق رام مندر کے افتتاح سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت ہندوتوا آئیڈیالوجی اور اکثریتی حکمرانی کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ وہاں موجود اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔

کامران یوسف کے مطابق بابری مسجد کے علاوہ وارانسی اور متھرا کی تاریخی مساجد سے متعلق بھی بھارت میں تنازعات چل رہے ہیں۔ ہندو انتہا پسندوں کا دعویٰ ہے کہ یہاں بھی ماضی میں مندر موجود تھے۔ ان مساجد کو مسمار کرنے اور مندر بنانے کے حوالے سے بھی باتیں چل رہی ہیں۔ یہاں تک کہ تاج محل کے حوالے سے بھی ایسا ہی دعویٰ سامنے آیا ہے۔ حالانکہ تاج محل بھارت کی پہچان مانا جاتا ہے۔ ہندو انتہا پسندوں کا ماننا ہے کہ جتنی بھی عمارتیں یا نشانیاں مسلمان حکمران چھوڑ کر گئے، ان سب کو ختم کرنا ہے۔ پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک بھی اس وقت تشویش کا شکار ہیں۔ اس وقت بھارت میں کوئی بھی بی جے پی حکومت یا نریندر مودی کے خلاف بات کر کے اس کے نتائج کا سامنا کرنے کا متحمل نہیں ہے، خواہ وہ کوئی صحافی ہو یا بالی وڈ سٹار۔

مزیدخبریں