آئین، ایف بی آر اور ٹیکس قانون سازی

ایف بی آر کی ویب سائٹ پردستیاب خط میں کہا گیا ہے، ”ایک منصوبے کے طور پر، ہم نے فنانس بل، 2025 کے لیے تجاویز تیار کرنا شروع کر دی ہیں، ٹیکس پالیسیوں کو بہتر بنانے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کی اجتماعی مہارت اور بصیرت سے فائدہ اٹھانے کے لیے، ہم خوش دلی سے آئندہ بجٹ برائے مالی سال 2025-26 کے لیے تجاویز کی دعوت دیتے ہیں“

07:10 PM, 23 Jan, 2025

حذیمہ بخاری، ڈاکٹر اکرام الحق

اس سال، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے اسٹیک ہولڈرز(stakeholders) سے کہا ہے کہ ”بجٹ کی تشکیل کے عمل کو بڑھانے اور بیک اینڈ پروسیجرل (backend procedural) بوجھ کو کم کرنے کے لیے وہ 31 جنوری 2025 تک بجٹ 2025-26 کے لیے ٹیکس تجاویز بھیجیں ۔ ایف بی آر کی ویب سائٹ پردستیاب  خط میں کہا گیا ہے، ”ایک منصوبے کے طور پر، ہم نے فنانس بل، 2025 کے لیے تجاویز تیار کرنا شروع کر دی ہیں۔ ٹیکس پالیسیوں کو بہتر بنانے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کی اجتماعی مہارت اور بصیرت سے فائدہ اٹھانے کے لیے، ہم خوش دلی سے آئندہ بجٹ برائے مالی سال 2025-26 کے لیے تجاویز کی دعوت دیتے ہیں“ ۔
ایف بی آر کے خط       F.No. 1(2) SA-M(IRP)/2025   مورخہ   7جنوری 2025 کا پیرا 2  درج ذیل ہے:
        ”درج ذیل پالیسی کے شعبوں میں آپ کے ان پٹ/مشورے کو بہت سراہا جائے گا۔
i           آمدنی پیدا کرنے کی کوششوں میں وسیع تر شرکت کے لیے ٹیکس  کی بنیاد میں وسعت۔
ii         جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی )کے نظام میں تمام کاروباروں کی پوری ویلیو چین (value chain)  کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کے لیے پالیسی تجاویز۔
iii        مختلف اقدامات متعارف کروا کر ترقی پسند ٹیکس (progressive tax) کو فروغ دینا جہاں امیر طبقے پر ٹیکس کے واقعات زیادہ ہیں۔
iv        تمام ٹیکس قوانین کے تحت ٹیکس مراعات اور چھوٹ کو  ختم کرنا۔
v           ٹیکس دہندگان کی سہولت   اور ٹیکس قوانین کو آسان بنا کر کاروبار کرنے میں آسانی پیدا کرنا۔
vi        ٹیکس میں غیرجانبداری کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ٹیکس ثالثی کے مواقع کو کم کرنے اور معیشت میں کارکردگی کو بڑھانے کے اقدامات۔
vii       ٹیکس کی تحریفات، طریقہ کار کی خرابیوں اور بے ضابطگیوں کا خاتمہ۔“
خط کا پیرا 3 واضح کرتا ہے، ”اوپر کی نشاندہی کیے گئے  پوائنٹس  صرف مثالی ہیں اور مکمل نہیں“، اور  ایف بی آر  اس امر پر زور دیتا ہے، ”تجاویز ٹیکس قوانین میں اضافے، حذف، یا مزید ترامیم کے ذریعے واضح، بامعنی اور قابل عمل ہونے کی توقع کی جاتی ہے“۔
ایف بی آر نے اسٹیک ہولڈرز سے 31.01.2025 تک اپنی تجاویز بھیجنے کی درخواست کی ہے۔ اس نے مزید کہا ہے کہ ان کو  کسی بھی فورمٹ یعنی وورڈ یا   ایکسل میں درج ذیل  پتوں پر ای میل بھی کیا جا سکتا ہے:
ہر تجویز کو اعداد و شمار کے تجزیے کے ذریعے سپورٹ کیا جانا چاہیے۔
            i           آئی سی ٹی (سروسز پر ٹیکس) کی تجاویز کے لیے: aamer.bhatti@fbr.gov.pk
            ii         انکم ٹیکس کی تجاویز کے لیے: secy.itb@fbr.gov.pk
            iii        سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی تجاویز کے لیے: sec.stbudget@fbr.gov.pk
ایف بی آر کی طرف سے تجویز کردہ فارمیٹ یہ ہے:

آمدنی کا اثر عقلیت مجوزہ ترامیم سیکشن/شق/قواعد
(4) (3) (2) (1)

ایف بی آر کی طرف سے ٹیکس تجاویز کے حصول کی سالانہ رسمی مشق کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے تناظر میں جامع تجزیہ کی ضرورت ہے۔ ہر سال، اس   لا حاصل مشق کے بعد، مالیاتی بل  (finance bill) مزید  بے معنی ترامیم  سے موجودہ ٹیکس قوانین  کو پیچیدہ سے پیچیدہ   بناتا ہے، اور شہریوں پر کسی بھی قسم کے معاوضے کے  بغیر مخصوص پابندی کے ساتھ ود ہولڈنگ ایجنٹس  (withholding agents)کے طور پر کام کرنے کی غیر آئینی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالتا ہے۔ یہ ان کے بنیادی حق کہ ان سے کسی بھی  قسم کی جبری مشقت نہیں لی جائے گی   کی صریح خلاف ورزی ہے، جس کی ضمانت آئین کے آرٹیکل 11(2) کے تحت دی گئی ہے ۔ بدقسمتی سے، انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 اور سیلز ٹیکس ایکٹ، 1990 کے تحت ودہولڈنگ ایجنٹس کے طور پر  بغیر اجرت   "جبری مشقت"  لینے کے عمل کو کسی نے مناسب اور اجتمائی طور پر  ہائی کورٹس میں چیلنج  نہیں کیا ۔یہ  تو  ملک  کی تمام ٹیکس بارز  کی مشترکہ ذمہ داری تھی۔
آئین کے آرٹیکل 11(2) میں استعمال ہونے والے  الفاظ، "جبری مشقت" کی عدالتی تشریح، کسی کو ایسا کام کرنے پر مجبور کرنے کا احاطہ کرتی ہے، جسے  کوئی  بھی رضامندی سے اجرت کے عوض بھی  انجام دینے کے لیے بھی تیار نہ ہو ، جب کہ ٹیکس قوانین میں تو ودہولڈنگ ایجنٹس  کواجرت کا   خاص طور پر مطالبہ نہ کرنے کا پابند کیا گیا ہے، اور حکومت کو اس کو ادا نا کرنے کا  غیر آئینی  استثنیٰ دیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت 'بنیادی حقوق کے نفاذ، آئینی کیس نمبر 1 آف 1988' میں کی گئی ہے، جس کا فیصلہ 18 ستمبر 1988 کو ہوا، حوالہ کے لئے دیکھئے  139 SCMR  1989، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان( PLD 2009 سپریم کورٹ 507) میں اس کی مزید تفصیلی  تعبیر کی گئی ہے ۔
پاکستان کی پارلیمنٹ حیران کن طور پر وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد ایف بی آر کی سفارش پر ایسے قوانین پاس کرتی ہے لیکن کسی بھی منتخب ممبر نے ملک کے اعلیٰ ترین قانون کی اس سنگین خلاف ورزی کا کبھی نوٹس نہیں لیا۔ آئین کے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان اور ہائی کورٹس، جو شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی پابند ہیں، بدقسمتی سے آج تک ایسی قانون سازی کو آئین کے آرٹیکل 11(2) کے تناظر میں جانچنے میں ناکام رہی ہیں۔
ایف بی آر کا لیٹر  F.No. 1(2) SA-M(IRP)/2025، آئین کی سراسر خلاف ورزی ہے، کیونکہ یہ مقننہ کے دائرہ کار میں تجاوز کرتا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے، ''ہم نے فنانس بل، 2025 کے لیے تجاویز تیار کرنا شروع کر دی ہیں''۔ ایف بی آر کس قانون کے تحت فنانس بل 2025 کی تیاری کے لیے ٹیکس تجاویز مانگ رہا ہے؟
ایف بی آر کا دائرہ اختیار، ایگزیکٹو کا حصہ ہونے کے ناطے، کسی بھی قانون سازی کے کام تک توسیع نہیں کرتا جس میں فنانس بل، 2025 کی تیاری شامل ہو۔ یہ اس کا کوئی کام نہیں، یہاں تک کہ 1973 کے رول آف بزنس کے تحت بھی! درحقیقت یہ آئین کی صریح خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ یہ واحد ذمہ داری پارلیمنٹ کی ہے جیسا کہ سپریم کورٹ  نے Eli Lily (Pvt) Ltd v. CIT (2009) 100 Tax 81 (S.C. Pak) میں  حکم جاری کیا  تھا۔ 
آئین کسی بھی آئینی ادارے کو دوسرے آئینی ادارے کے معاملات میں مداخلت کرنے سے منع کرتا ہے۔ مقننہ کا کوئی بھی   کام انتظامیہ کو نہیں دیا جا سکتا۔    کسی  بھی آئینی ادارے کا  اختیارات کا ناجائز استعمال   جائز قرار نہیں دیا  جا سکتا  ،  جیسا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے متعدد کیسز میں وضاحت کی ہے، مثلاً، میاں محمد نواز شریف کا کیس PLD 1993 SC 473، حاکم علی کا کیس PLD 1992 SC 595 اور ضیاء الرحمان کا کیس  PLD 1973 SC 49۔
آئین کے آرٹیکل 7 کے تحت ”ریاست“ کی تعریف (حصہ II کا پہلا آرٹیکل جس کا عنوان بنیادی حقوق اور پالیسی کے اصول ہیں) کہتا ہے: ”اس حصہ میں، تاوقتیکہ سیاق و سباق سے کچھ اور مفہوم نہ نکلتا ہو، ”ریاست“  سے وفاقی حکومت، مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) کوئی صوبائی حکومت، کوئی صوبائی اسمبلی اور پاکستان میں ایسی مقامی ہئیت ہائے مجاز مراد ہیں جن کو از روئے قانون کوئی محصول یا چونگی عائد کرنے کا اختیار حاصل ہو“۔
آئین کا آرٹیکل 3 (استحصال کا خاتمہ): ”ریاست استحصال کی تمام اقسام کے خاتمہ اور اس بنیادی اصول کی تدریجی تکمیل کو یقینی بنائے گی کہ ہر کسی سے اس کی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے گا اور ہر کسی کو اس کے کام کے مطابق معاوضہ دیا جائے گا“۔
آئین کا آرٹیکل 5 (جس کا عنوان ریاست سے وفاداری اور آئین اور قانون کی اطاعت ہے)ذیل میں پڑھتا ہے:
(1) ریاست سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے۔ 
(2) آئین اور قانون کی اطاعت ہر شہری خواہ وہ کہیں بھی ہو اور ہر اس شخص کی جو فی الوقت پاکستان میں ہو(واجب التعمیل)ذمہ داری ہے ۔
اگر ”ریاست“ آئین کے آرٹیکل 3 کے تحت اپنا وعدہ پورا نہیں کر رہی ہے تو وہ آرٹیکل 5(1) کے تحت عائد کردہ شہریوں سے اس ذمہ داری کی کیسے توقع کر سکتی ہے کہ ”ریاست سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے“؟
آئین ریاست اور شہریوں کے درمیان ایک سماجی معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کی کسی بھی خلاف ورزی کو  غیر سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا۔ قانون سازوں نے ایف بی آر کو فنانس بلز تجویز کرنے کے اختیارات کیسے دیئے ہیں جب  کہ آئین کے آرٹیکل 77 کے تحت یہ واضح ہے کہ ”مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے کسی ایکٹ کے ذریعےیا اس کے اختیار کے تحت وفاق کی اغراض کے لئے کوئی محصول نہیں لگایا جائے گا“۔
قانون سازوں کا فرض ہے کہ وہ ٹیکس پالیسی وضع کریں، ٹیکس قوانین  بنائیں اور ان میں ترامیم کریں۔ محصولات سے متعلق وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کی قائمہ کمیٹیوں کو، جن میں تمام منتخب جماعتوں کے ارکان ہوتے ہیں، خود عوامی مباحثوں، ماہرین کی ٹیلی ویژن پر سماعت اور/یا اسٹیک ہولڈرز سے تحریری تجاویز طلب کرنے کے بعد منی بلز تیار کریں کا حکم CIT بمقابلہ Eli Lily  میں دیا گیا ہے۔اس کیس میں جسٹس   اعجاز احمد چوہدری نے اپنے علیحدہ نوٹ میں کہا:
” ہمارا آئین ٹرائیکوٹومی  (trichotomy)پر مبنی ہے، جیسا کہ اس عدالت نے مختلف فیصلوں میں قانون وضع کیا ہے جیسے کہ ضیاء الرحمان کا کیس PLD 1973 SC 49، میاں محمد نواز شریف کا کیس PLD 1993 SC 473 اور حاکم علی کا کیس PLD 1992 SC 595 ۔
 مذکورہ بالا کیسز میں  درج ذیل اصول بیان کیے گئے ہیں:-
·      قانون سازی کلی طور پر منتخب  قانون ساز   (مقننہ) کا اختیار ہے:
·      قانون پر عمل درآمد  انتظامیہ کی ذمہ داری  ہے:
·      عدلیہ قانون اور آئین کی تشریح کرنے کی پابند ہے ۔
….  آئین کے بارے میں میری سمجھ کے مطابق، آئین کی مشینری نے تمام  اداروں (organs of state)کے درمیان نازک انداز میں توازن اور ہم آہنگی قائم کر دی ہے، انہیں محدود کر دیا ہے کہ وہ اپنی حدود سے باہر نہ جائیں۔ آئین کے ہر آرٹیکل کی اپنی اہمیت ہے،  لیکن آرٹیکل 5 (2) کے ساتھ پڑھا جانے والا آرٹیکل 4 ہر شہری اور  ادارے کو قانون کے مطابق کام کرنے کی ہدایت کرتا ہے جبکہ آرٹیکل 5(2) آئین کی اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے“۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے میسرز مصطفیٰ امپیکس، کراچی بمقابلہ حکومت پاکستان(2016) 114 TAX 241 (S.C.) میں کہا:
”...نہ کوئی سیکرٹری، نہ کوئی وزیر اور نہ ہی وزیر اعظم وفاقی حکومت ہیں اور ان میں سے کسی کے ذریعے، خاص طور پر، مالی معاملات کے سلسلے میں، وفاقی حکومت کے ذریعے استعمال کیے جانے والے قانونی اختیارات کی مشق، یا مطلوبہ مشق، آئینی طور پر ناجائز اور قانون کی نظر میں باطل ہے۔ اسی طرح بجٹ کے اخراجات یا صوابدیدی سرکاری اخراجات کا اختیار صرف وفاقی حکومت یعنی کابینہ دے سکتی ہے، نہ کہ خود وزیراعظم“۔
بد قسمتی سے منتخب حکومتوں نے  ایف بی آر کو ٹیکس پالیسی بنانے اور فنانس بل کے ذریعے ٹیکس قوانین  میں تبدیلیاں تجویز کرنے سے متعلق قانون سازی کا کام سونپا ہے، جو کہ صریح طور پر غیر آئینی ہے۔ ٹیکس قانون سازی میں قومی اسمبلی صرف ربڑ سٹیمپ کا کام کرتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایف بی آر اصل ٹیکس پوٹینشل جمع کرنے میں ناکام رہا ہے،  جو کہ 30 ٹریلین روپے سے کم نہیں ہے (جی ڈی پی کا 15% بشمول غیر رسمی معیشت)  ۔  اس ناکامی کے علاوہ ایف بی آر  اپنی غیر معقول اور جابرانہ ٹیکس پالیسیوں سے تجارت اور کاروبار کی نمو کو بھی تباہ کر رہا ہے، جس کی تفصیل  Towards Broad, Flat, Low-rate and predictable taxes (تیسرا ایڈیشن، اکتوبر 2024) میں بیان  کی گئی ہے ہے۔ .
جسٹس چوہدری اعجاز احمد نے سی آئی ٹی بمقابلہ ایلی للی (پرائیویٹ) لمیٹڈ (2009) 100 ٹیکس 81 (ایس سی پاک) میں اپنے شاندار نوٹ میں درج ذیل قابل ذکر تبصرے کیے جو سب کو پڑھنا چاہیے:
6. آئین کے تحت قانون سازی کا طریقہ کار متعین کیا گیا ہے مثلاً کمیٹیوں کے غور و خوض اور سفارشات، مسودہ تیار کرنے والی کمیٹی کی کارروائی اور مسودہ پیش کرتے وقت ان کمیٹیوں کی رپورٹ یا تمام قیمتی مواد۔ اسمبلی کے مقاصد، کسی بھی تنقید کا سامنا کرنے کا انداز، اس کے نتیجے میں کیے گئے فیصلے، تجویز کردہ ترامیم، ان کے حق میں یا خلاف تقریریں اور ان کا حتمی اختیار یا مسترد ہونا مسئلے کے خاص معاملے پر روشنی ڈالنے میں مددگار ثابت ہوں گے“۔
پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک ہم کوئی بھی انکم ٹیکس ایکٹ نہیں بنا سکے جس پر پارلیمنٹ میں بحث کی گئی۔ منسوخ شدہ انکم ٹیکس آرڈیننس، 1979 اور انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001، جو اس وقت زیر عمل ہیں، بالترتیب جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی مارشل لاء حکومتوں کے دوران جاری کیے گئے تھے، اور بعد میں پارلیمنٹ نے ان کی توثیق کی تھی۔
آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت، کابینہ کی منظوری کے بعد صدر پاکستان کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی آرڈیننس کی مدت 120 دن ہوتی ہے، بشرطیکہ وہ ایوان (سینیٹ  یا قومی اسمبلی) جس میں اسے بل کے طور پر رکھا گیا ہو، اس کے لیے ایک توسیع دے سکتا ہے۔ اگر مقررہ وقت کے اندر آرڈیننس کو ایکٹ کے طور پر نافذ نہیں کیا جاتا ہے تو اس کا وجود خود بخود ختم ہو جائے گا۔ یہ اسکیم واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ  ریاست کے اعلیٰ ترین قانون کے وضع کرنے والوں نے مقننہ پر یہ فرض عائد کیا ہے کہ وہ آئین کی اسکیم کے تحت طے شدہ پیرامیٹرز کے اندر قوانین وضع کرے۔
ٹیکس کا نظام آئینی جمہوریت کے بنیادی عناصر میں سے ایک ہے۔ اہم سوالات جیسے کہ کس پر ٹیکس عائد کیا جائے، کتنا اور کن مقاصد کے لیے، بنیادی طور پر سیاسی سوالات ہیں۔ اس قسم کے سوالات ہمیشہ سیاسی عمل کے ذریعے حل ہوتے ہیں۔ ٹیکس کی ذمہ داریاں کس طرح عائد کی جائیں، ان کا نظم و نسق اور نفاذ آئینی سوالات ہیں۔ ٹیکسوں کا نفاذ، انتظامیہ اور نفاذ قانون کی حکمرانی، اختیارات کی مناسب تقسیم، اور عدلیہ کے کردار وغیرہ کے بارے میں اہم مسائل کو جنم دیتا ہے۔ ایف بی آر اسٹیک ہولڈرز سے تجاویز مانگ کر ان مسائل کا فیصلہ کیسے کر سکتا ہے؟
سی آئی ٹی بمقابلہ ایلی للی (پرائیویٹ) لمیٹڈ (2009) 100 ٹیکس 81 (ایس سی پاک) میں، جسٹس چوہدری اعجاز احمد اپنے نوٹ کے پیرا 3 میں درج ذیل تجویز   دی ہے:
”خاص طور پر ٹیکس کے قوانین کو اس انداز میں وضع کیا جانا چاہیے کہ پاکستان کے لوگ خود رضاکارانہ طور پر حوصلہ افزائی اور ایمانداری سے ٹیکس ادا کریں۔ مشینری اور انکم ٹیکس حکام کے استحصال کے خوف کو ختم کر کے ہی لوگوں میں ایسی تحریک پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس طرح کی ترغیب ہمارے لوگوں کو ٹیکس ادا کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کی ترغیب دے گی جس کے نتیجے میں ریاست کی مالی حالت مستحکم ہو گی اور قوم کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے نجات دلانے میں مدد ملے گی۔ تنخواہ دار لوگوں کے علاوہ تمام مکینوں، صنعت کاروں اور پیشہ ور افراد کے لیے اوپری اور نچلی ٹیکس کی حدیں طے کرنے سے لوگوں میں احساس ذمہ داری اور حوصلہ افزائی میں مدد ملے گی۔ زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی حد کو حاصل کرنے کے بعد، قانون کی سختیوں کا تعین کرنے والوں کو نہیں چھونا چاہیے۔ ایک بار جب اس قانونی تکنیک کو اپنا لیا جائے تو، ہر شخص ٹیکس ادا کرنے سے گریز کرنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ سطح تک پہنچنے کی پوری کوشش کرے گا۔ یہ فارمولہ چھپانے، جھوٹ بولنے اور غلط طریقے سے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی سماجی برائیوں کو بھی ختم کر دے گا جس کے نتیجے میں ایک بہتر اور مضبوط سماجی نظام ملے گا... “
ایف بی آر کی طرف سے ٹیکس تجاویز طلب کرنے اور فنانس بل بنانے کا عمل آئین کے آرٹیکل 162 کے ساتھ پڑھے گئے آرٹیکل 77 کی صریح خلاف ورزی ہے جیسا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے انجینئر اقبال ظفر جھگڑا اور سینیٹر رخسانہ زبیری بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان اور دیگر (2013) 108 ٹیکس 1 (S.C.Pak) میں وضاحت کی ہے:
”صرف پارلیمنٹ/ مقننہ کو ٹیکس لگانے کا اختیار ہے نہ کہ حکومت/ ایگزیکٹو کو۔ جہاں تک حکومت/ایگزیکٹیو کو اس طرح کے اختیارات سونپنے کا تعلق ہے، تو یہ ایسے قوانین کے نفاذ کے مقصد کے لیے ہے، جو کہ قوانین وضع کرنے، یا نوٹیفیکیشن یا گائیڈ لائنز جاری کرنے کے ذریعے، کیس ٹو کیس پر منحصر ہے، جیسا کہ  بہت سے کیسز میں کہا گیا ہے،جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ لیکن کسی بھی صورت میں، فیڈریشن کے لیے ٹیکس لگانے کا اختیار حکومت/ایگزیکٹیو کو نہیں دیا جانا چاہیے۔ لہٰذا، علمائے کرام کے ذریعہ اٹھائے گئے دلائل کی کوئی طاقت نہیں ہے اور ان کو اس کے ذریعہ رد کیا جاتا ہے۔“
آئین کے آرٹیکل 162 کے ساتھ پڑھے گئے آرٹیکل 77 میں موجود ” نمائندگی کے بغیر کوئی ٹیکس نہیں“ کے اصول کی پاکستان میں مسلسل اور ڈھٹائی سے خلاف ورزی کی گئی ہے ۔ یہ ایک قابل افسوس عمل ہے جس پر کسی بھی سطح پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔  اس کے بنیادی مجرم پارلیمنٹ کے ارکان ہیں جو ٹیکس لگانے کا اپنا قانون سازی کا  اختیار وفاقی حکومت کو(ایف بی آر کے ذریعے) سونپ چکے ہیں ۔ یہ آئین اور سپریم کورٹ کے اوپر بیان کردہ فیصلوں کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
ہماری موجودہ ٹیکس پالیسی ترقی مخالف، رجعت پسند اور غیر منصفانہ ہے۔ ٹیکس مشینری ناکارہ اور جابرانہ بھی ہے۔ معیشت پر اس کے اثرات کا اندازہ کیے بغیر، آمدنی کے اہداف کو پورا کرنے پر واحد دباؤ نے، خاص طور پر غیر ملکی قرض دہندگان کے حکم پر عمل کرنے کے بعد، ہماری تجارت اور صنعت کو معذور کر دیا ہے۔ عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی طرف سے بیمار معیشت کو ٹھیک کرنے اور  ترقی مخالف ٹیکس سسٹم کے نسخوں کے نتائج پر پاکستان میں ٹیکس ریفارمز: تاریخی اور تنقیدی  جائزہ  میں تفصیل سے بات کی گئی ہے  جو کہ https://file.pide.org.pk/pdf/Books/Tax-Reforms-in-Pakistan-Historic-and-Critical View.pdf
پر مفت دستیاب ہے۔
ایف بی آر محض ٹیکس وصول کرنے والا ادارہ ہے اور کچھ نہیں۔ قانون سازی اس کا  کام نہیں۔ اسے سب سے پہلے ان تمام قانون سازوں کو پکڑنا چاہیے جو آئین کے آرٹیکل 5(2) کے حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں  اور ایمانداری سے  ٹیکس ادا  نہیں کر رہے ہیں۔ 
قانون سازوں کی اکثریت، جو آئین کی حفاظت کا حلف اٹھائے ہوئے ہیں، ٹیکس گوشوارے جمع نہ کر کے یا  درست آمدن کا اعلان نہ کر کے  اربوں روپے کے اثاثے جمع کر چکے ہیں (ٹیکس نظام کی تنظیم نو III، بزنس ریکارڈر، 24 جنوری 2020).
پاکستان ایک انوکھا ملک ہے جہاں قانون ساز اور منتظمین آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہیں اور یہاں تک کہ سول سوسائٹی کے پڑھے لکھے ارکان اور انسانی حقوق کے کارکن عدالتوں سے  از خود ایکشن لینے یا وکلاء سے درخواستیں دائر کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں،  لیکن ان خلاف ورزی کرنے والوں کو اقتدار میں ووٹ دیتے رہیں۔ . وہ کبھی بھی ریاستی اہلکاروں پر ان کے غیر قانونی کاموں یا قوانین کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داری کو پورا نہ کرنے پر مقدمہ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے! اسے ”اجتماعی بے حسی“ یا ”خود حاصل  بے بسی“ کہا جاتا ہے۔
پاکستان کو ایسے منصفانہ اور سادہ ٹیکس نظام کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے جو ریاست کے لیے خاطر خواہ وسائل فراہم کر سکے— شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے۔ تفصیلات کے لئے:  Towards Broad, Flat, Low-rate and predictable taxes  (تیسرا ایڈیشن، اکتوبر 2024) جو کے مفت دستیاب ہے:
https://primeinstitute.org/wp-content/uploads/2025/01/Towards-Broad-Flat-Low-rate-Predictable-Taxes-Third-Edition.pdf

مزیدخبریں