عام انتخابات، ایک غیر جانبدار سیٹ ٹو سیٹ جائزہ

05:04 AM, 23 Jul, 2018

سید جواد احمد
ادارتی نوٹ:  سید جواد احمد لاہور میں مقیم محقق اور تجزیہ نگار ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقوں پر دو کتب لکھ چکے ہیں۔ ان کی پاکستان کی سیاست پر بھی گہری نظر ہے اور رپورٹر کی سی بےچین روح کے مالک بھی ہیں۔ جواد نے پاکستان بھر سے حقائق جمع کر کے الیکشن کا سیٹ ٹو سیٹ جائزہ لیا ہے جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے تمام تر تحقیق خود محقق کی ذاتی ہے اور کوئی بھی اندازہ حتمی نہیں کہ بقول خود جواد صاحب کے، ووٹ 'ووٹر' نے ہی ڈالنا ہے۔

عام انتخابات میں اب کچھ گھنٹے ہی رہ گئے ہیں۔ پارٹی ووٹر، نئے ووٹر، نیوٹرل ووٹر، سب نے اب حتمی طور پر فیصلہ کر لیا ہے کہ کس کو ووٹ دینا ہے۔ سیاسی پارٹیوں، امیدواران نے صف بندی کر لی ہے۔ 2013 کے برعکس، جب نون لیگ کی جیت واضح نظر آ رہی تھی، اس دفعہ کوئی بھی دانشور، تجزیہ نگار، میڈیا ہاؤس کوئی پیش گوئی دینے سے احتراز کر رہے ہیں۔ یہ انتخابات ایک ایسے معمے کی صورت اختیار کر گئے ہیں کہ جس کا حل 25 کی رات ہی عیاں ہو گا۔ امریکہ میں مقیم، ہارورڈ سے پی ایچ ڈی یافتہ ڈاکٹر منظور اعجاز کی رائے میں یہ انتخابات 70 کے انتخابات کا ری پلے ہوں گے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک بہت بڑا سرپرائز آنے کو ہے۔ صحافی چودھری غلام حسین پی ٹی آئی کو 125 سیٹیں جتوا رہے ہیں، 4 جولائی تک کے گیلپ اور پلس کے سروے نون لیگ کو ایک سے پانچ فیصد برتری دے رہے ہیں لیکن ان کا سیمپل سائز بہت محدود تھا، پورے ملک سے پندرہ سو لوگ۔ آئی پور نامی تنظیم کا سروے سائز کے حساب سے بہت مناسب تھا۔ انہوں نے پنجاب سے قومی اسمبلی کے 141 حلقوں سے تقریباً تین لاکھ ووٹروں سے رائے لی۔ ان کے مطابق نون لیگ کی مقبولیت 51 فیصد اور تحریک انصاف کی 30 فیصد تھی جبکہ پیپلز پارٹی 17 فیصد پر تھی۔ یہ سروے نتائج کے طور پر اس لئے تسلیم نہیں کیے جا سکتے کیونکہ ووٹ 'ووٹر' ڈالتا ہے، سروے نہیں۔

اس دفعہ عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی 272 سیٹوں کی تقسیم کچھ اس طرح ہے۔

پنجاب: 141
سندھ: 65
خیبر پختونخوا: 39
اسلام آباد: 2
بلوچستان: 15
فاٹا: 10

باقی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں ہوتی ہیں جو پارٹی پوزیشن کے حساب سے مختص کی جاتی ہیں۔ ان پر کوئی الیکشن نہیں ہوتا، پارٹی لسٹ کے مطابق خود بخود وہ ممبر بن جاتے ہیں۔ اس طرح قومی اسمبلی 342 ارکان پر مشتمل ہوتی ہے۔ عمومی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکومت بنانے کے لئے 272 میں سے 137 سیٹیں چاہیے ہوتی ہیں۔

2013 میں پی ٹی آئی کا فیس بک پر حد سے زیادہ انحصار

انتخابات کو سمجھنا ایک بہت دلچسپ امر ہے۔ 2013 میں پی ٹی آئی کو اپنی کامیابی کی بھرپور امید تھی لیکن ان کو پورے ملک سے صرف 27 سیٹیں ملی تھیں۔ 97 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو پورے ملک سے 17 اور 2002 کے انتخابات میں نون لیگ کو صرف 18 سیٹیں ملی تھیں۔ اتنی کم پذیرائی کے باوجود صرف 11 سال بعد پیپلز پارٹی اور 12 سال بعد نون لیگ نے قومی سطح پر حکومت بنائی۔ 2013 میں تحریک انصاف جلسوں میں نوجوانوں کا جوش، پڑھے لکھے طبقے کی ایک بڑی تعداد کا ہمخیال ہونا اور سوشل میڈیا خاص طور پر فیسبک پر اپنی بھرپور پذیرائی سے خوش امیدی کا شکار ہو گئی۔ وہ یہ بھول گئی تھی کہ یہ پڑھے لکھے ووٹر کل ووٹر کا 25 فیصد بھی نہیں ہوتے۔ یہ تعداد شہروں میں ہے۔ دیہات میں تو یہ تعداد 5 فیصد بھی نہیں۔ اسی طرح جلسوں میں آنے والے نوجوان بھی بنیادی طور پر شہروں سے تعلق رکھتے تھے جو اگر کسی جلسے میں پچاس ہزار بھی آ جائیں تو کسی طور بھی ایک خاص حلقے کی نمائندگی نہیں کرتے۔ وہ شہر کے مختلف حلقوں سے آئے ہوتے ہیں اور تقسیم کی صورت میں ان کی تعداد فی حلقہ پانچ ہزار سے بھی زیادہ نہیں بنتی۔ رہی بات فیسبک کی تو آج بھی ملک میں فیسبک استعمال کرنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے بھی کم ہے جو تیرہ میں پچاس لاکھ بھی نہیں ہوگی۔ ان میں سے کتنے سیاست اور پی ٹی آئی میں دلچسپی رکھتے ہیں، اس کا اگر جائزہ لیا جاتا تو شاید ایک لاکھ سے بھی اوپر کی تعداد نہ آتی۔ یہ ایک لاکھ قومی اسمبلی کی ایک سیٹ بھی نہیں بناتے۔ یہ سب باتیں تو اہل عقل، حقیقت پسند اصحاب کی ہوتی ہیں۔ چونکہ پی ٹی آئی کی سوچ عقل سے زیادہ جذبات پر مبنی ہوتی ہے اس لئے ان امور کا جائزہ لینے کی بجائے ایک سال بعد وہ سڑکوں پر تھی۔

چینل صرف اپنے نظریے کے مطابق پارٹی پوزیشن سنا رہے ہیں

موضوع کی طوالت سے بچتے ہوئے ہم صرف یہی کہیں گے کہ عوامی رائے کا اندازہ لگانا ایک پیچیدہ امر ہے۔ سوٹ ٹائی لگا کر ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں ٹی وی چینل کے لئے اپنے تعصب پر مبنی جائزہ دینا اور بات ہے اور دیہات کی گلیوں میں گرمی اور گرد سے نبرد آزما ہو کر "حقیقی" رائے جاننا دوسری بات۔ آج اگر ٹی وی چینلوں کی بات کی جائے تو بول اور اے آر وائی اس بری طرح پی ٹی آئی کو ہر حلقے سے جتوا رہے ہیں کہ لگتا ہے پاکستان کے علاوہ ہندوستان سے بھی وہ بیس پچیس سیٹیں جیت جائے گی۔ سوائے دن، کیپیٹل، ڈان اور ایک حد تک جیو کے، باقی 20 چینلوں نے بھی اپنا پلڑا پی ٹی آئی کے حق میں بھاری کیا ہوا ہے۔

ووٹر سے اس کی زبان میں بات کرنا ضروری ہے

حقیقت میں یہ نظریاتی ووٹ کل ووٹوں کا بیس فیصد بھی نہیں ہوتا۔ شہروں میں اور وہ بھی مڈل اور لوئر مڈل تک (اپر کلاس کی نوے فیصد ووٹنگ پر ناک بھوں چڑھاتی ہے اور ووٹ ڈالنے نہیں آتی) کچھ نظریہ چلتا ہے۔ لوئر کلاس نظریے نامی امر سے مکمل بیگانہ ہوتی ہے۔ اس کا ووٹ بریانی، قیمے والے نان یا ہزار، پانچ سو فی ووٹ پر منحصر ہوتا ہے۔ یہ کلاس کل ووٹروں کا کوئی پچیس فیصد ہوتی ہے۔ شہروں کی ویسے بھی دیہات کے مقابلے میں سیٹوں کا تناسب تیس، ستر کا ہوتا ہے۔ جیت کے لئے کسی بھی پارٹی کو شہروں سے ووٹ ملیں یا نہ ملیں، دیہات سے فتح لازمی چاہیے ہوتی ہے۔ دیہات میں ووٹ ذات برادری، دھڑے بندی، بزرگوں پیروں کے فیصلے پر پڑتے ہیں۔ دیہات میں ایک اور بہت اہم امر جو ووٹنگ پر اثر انداز ہوتا ہے، وہ پارٹی کا دیہی ثقافت سے ہم آہنگ ہونا بھی ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی نے تیرہ میں دیہات، قصبات میں بہت کم جلسے کیے۔ ان کے امیدوار ویسے بھی کلین شیو پینٹ شرٹ پہننے والے ہوتے تھے۔ ان کا لیڈر رے بین کے چشمے لگا کر جلسوں سے خطاب کرتا تھا جس میں انگریزی کا کافی استعمال ہوتا تھا۔ اس کے مقابلے میں نون کے امیدوار دیہاتی بود و باش رکھنے والے تھے۔ ان کا لیڈر ایک عوامی زبان میں ان کے ایشوز پر بات کرتا تھا۔ اس کے بارے سری پائے، لسی کی پھبتی دیہاتیوں کے لئے ایک اپنائیت کا باعث بنتی تھی۔ نتیجہ آیا تو پورے دیہی پنجاب سے پی ٹی آئی کی چار اور نون کی اسی سیٹیں تھیں۔ اس دفعہ کیبل کی دور دراز دیہات تک بھی رسائی نے گو سیاسی نظریے کو فروغ دیا تو ہے لیکن دیہات ابھی بھی اسی فیصد انہی امور پر ووٹ ڈالیں گے جن کا پہلے ذکر ہو چکا ہے۔

نواز شریف کی وطن واپسی سے پیدا ہونے والی صورتحال



ان انتخابات کی ایک اور خاص بات نواز شریف کی لندن سے وطن آمد اور گرفتاری پیش کرنا ہے۔ اس واقعے نے پنجاب کی حد تک ہمدردی کی ایک ہوا کو جنم دیا ہے۔ پنجاب کی ایک روایت رہی ہے کہ خوشی میں شریک ہو نہ ہو، غم میں ضرور شریک ہوتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا جو ووٹر بھٹو کی پھانسی سے غمزدہ ہو کر اس کا ووٹر بنا، وہ ایسے اس کا ساتھ کھڑا ہوا کہ اگلے تیس سال اس نے پیپلز پارٹی کو ہی ووٹ ڈالا۔ نواز شریف اپنے بیانیے اور وطن واپس آ کر گرفتاری پیش کر کے اپنے آپ کو اس ہمدردی کے قابل بنا چکے ہیں۔ انتخابات سے کچھ دن قبل اس واقعے نے مردہ ہوتی ہوئی نون لیگ میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ الیکٹیبلز، محکمہ زراعت، امیدواران کی مضبوطی، سیاسی بیانیہ، ہمدردی، تمام امور کو مد نظر رکھ کر میں نے مندرجہ ذیل اندازہ ترتیب دیا ہے۔ اس میں کسی دھونس دھاندلی کا کوئی دخل نہیں۔ نتائج کی ساری ذمہ داری خاکسار پر ہے۔

یہ صرف ایک اندازہ ہے۔ حقیقت صرف مالک تقدیر کو معلوم ہے۔

این اے 1 چترال

یہ وہ مشہور حلقہ ہے جو پیپلز پارٹی کا اتنا مضبوط گڑھ تھا کہ نصرت بھٹو بھی یہاں سے الیکشن لڑ کر کامیاب ہوئی تھیں۔ اس کی بنیادی وجہ بھٹو مرحوم کا لواری ٹنل کی تعمیر کا آغاز تھا۔ اہلیان چترال نے اس کا اتنا بھرپور خیر مقدم کیا کہ اگلے کئی الیکشن پیپلز پارٹی کو ٹنل مکمل نہ ہونے کے باوجود ووٹ کیا۔ یہاں مذہب بھی ووٹنگ کا ایک اہم امر ہوتا ہے۔ 2002 میں یہاں سے ایم ایم اے کے مولانا عبدالاکبر چترالی منتخب ہوئے تھے۔ آٹھ میں ق لیگ کے شہزادہ محی الدین جبکہ تیرہ میں مشرف کی اے پی ایم ایل کے واحد ایم این اے  افتخار الدین منتخب ہوئے تھے۔ اس دفعہ دو سابق ایم این اے شہزادہ محی الدین نون لیگ کے ٹکٹ پر جبکہ مولانا عبدالاکبر چترالی ایم ایم اے کے مابین سخت مقابلہ ہے۔ گو پی ٹی آئی کے عباللطیف بھی مقابلے میں ہیں لیکن وہ کسی گنتی میں نہیں۔ اس سیٹ پر بہت سخت مقابلے کی توقع ہے کیونکہ مذہبی جماعتیں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو چکی ہیں جبکہ نون لیگ کو لواری ٹنل کی وجہ سے بہت پذیرائی حاصل ہے۔ میرے اندازے میں ایک سخت مقابلے کے بعد نون لیگ کے شہزادہ محی الدین فتح یاب ہوں گے۔



 

این اے 2 سوات

سوات اور شانگلہ کے علاقوں پر مشتمل یہ ایک نسبتاً آسان حلقہ ہے اندازہ لگانے کے لئے۔ 2002 میں یہاں سے ایم ایم اے کے امیر مقام منتخب ہوئے تھے۔ 2008 میں بھی وہی قاف لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔ انہوں نے بعد میں نون لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ 13 میں یہاں سے مراد سعید منتخب ہوئے۔ اس دفعہ پورے سوات میں نون لیگ کی اس لئے ہوا ہے کیونکہ نون لیگ نے چکدرہ، سوات میں ایک بہترین ہسپتال وفاقی خرچے پر بنایا ہے۔ پی ٹی آئی نے سڑکوں پر کوئی توجہ نہیں دی اور اس علاقے کی سب سے بڑی سڑک مینگورہ کالام روڈ پانچ سال جوں کی توں زبوں حالی کا شکار رہی۔ اس کی شکستگی سے سیاحت پر منفی اثر پڑا جو یہاں کا سب سے بڑا ذریعہ معاش ہے۔ عوام میں اس وجہ سے پی ٹی آئی کے خلاف غم و غصہ بھی پایا جاتا ہے۔ ایک اور میگا پراجیکٹ 81 کلومیٹر طویل مردان چکدرہ روڈ بھی اس مدت میں پی ٹی آئی مکمل نہیں کر سکی جس کا عوام کو رنج ہے۔ یہاں سے اس دفعہ نون لیگ کے امیر مقام اور پی ٹی آئی کے حیدر علی خان کے مابین مقابلہ ہے۔ ہمارے اندازے کے مطابق ایک آسان مقابلے کے بعد بھاری اکثریت سے نون لیگ کے امیر مقام فتح مند ہوں گے۔

 

این اے 3 سوات

اس حلقے کے پچھلے رزلٹ کی ضرورت ہی نہیں۔ یہاں سے نون لیگ کے صدر شہباز شریف پی ٹی آئی کے سلیم الرحمان کے مقابل ہیں۔ شہباز شریف بھاری اکثریت سے جیتیں گے۔



 

این اے 4 سوات

کانجو، کبل، مٹہ کے ان علاقوں پر مشتمل یہ حلقہ طالبان دور میں ایک ہولناک خونریزی سے گزر چکا ہے۔ اس حلقے میں مذہب ایک بہت مضبوط فیکٹر ہے۔ 2002 میں یہاں سے ایم ایم اے کے فضل سبحان، آٹھ میں پیپلز پارٹی کے سید علاؤالدین اور تیرہ میں پی ٹی آئی کے مراد سعید منتخب ہوئے تھے۔ مراد سعید اسمبلی میں اپنی شعلہ بیانی اور ہاتھا پائی کی وجہ سے مشہور رہے۔ گو یہ امر اہل دانش کے نزدیک قابل مزمت ہے لیکن ان کے ووٹر اس سے مطمئن دکھائی دیے۔ یہاں سے جیپ کے نشان پر ایک آزاد امیدوار شہزاد بھی توجہ کا مرکز ہیں۔ نون لیگ کے فیروز شاہ اور پی ٹی آئی کے مراد سعید کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔ ہمارے اندازے کے مطابق سخت مقابلے کے بعد یہ سیٹ پی ٹی آئی کے مراد سعید جیت لیں گے۔

lwars

 

این اے 5 اپر دیر

یہ علاقہ بھی طالبان دور میں خوفناک جنگ کا شکار ہوا تھا۔ اس حلقے میں مذہب کارڈ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ دو میں ایم ایم اے کے مولانا اسد اللہ، آٹھ میں پیپلز پارٹی کے نجم الدین جبکہ تیرہ میں جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ جیتے تھے۔ گو لواری ٹنل کا اس حلقے کو بھی فائدہ ہوا ہے لیکن اس کا براہ راست فائدہ نون لیگ کو نہیں پہنچا۔ اس دفعہ یہاں سے ایم ایم اے کے صاحبزادہ طارق اللہ، نون کے نثار خان، پی پی کے نجم الدین خان اور پی ٹی آئی کے صاحبزادہ صبغت اللہ کے مابین مقابلہ ہے لیکن ہمارے اندازے میں ایک آسان مقابلے کے بعد ایم ایم اے کے صاحبزادہ طارق اللہ ظفر یاب ہوں گے۔

 

این اے 6 لوئر دیر

آٹھ میں فتح پی پی کے ملک عظمت خان کا مقدر بنی تھی جبکہ تیرہ میں جماعت اسلامی کے صاحبزادہ یعقوب منتخب ہوئے تھے۔ اس حلقے میں بھی مذہب ایک بہت بڑا فیکٹر ہے۔ تیرہ میں اس حلقے سے تمام امیدواران کا آپس میں جرگہ اور اس میں ہونے والے خواتین کو ووٹ کا حق نہ دینے کا فیصلہ الیکشن کمیشن کے نوٹس کا حقدار بھی بنا تھا۔ اس دفعہ یہاں سے تحریک لبیک یا رسول اللہ کے احسان اللہ حیران کن طور پر اس لئے دیکھے جا رہے ہیں کیونکہ یہ علاقہ اکثریت دیوبندی مسلک کا حامی ہے جبکہ تحریک بریلوی فکر کی ہے۔ یہاں سے اس دفعہ نون لیگ کے جاوید اختر، پی ٹی آئی کے محبوب شاہ جبکہ ایم ایم اے کے اسد اللہ میدان میں ہیں۔ ہمارے اندازے کے مطابق ایک آسان مقابلے کے بعد ایم ایم اے کے اسد اللہ جیتیں گے۔

این اے 7 لوئر دیر

درویش منش امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا یہ آبائی حلقہ ہے جہاں سے دو میں قاضی حسین احمد مرحوم بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے۔ یہ حلقہ نئی حلقہ بندیوں میں معرض وجود میں آیا ہے اس لئے اس کا پچھلا ریکارڈ دینا مشکل ہے۔ اس علاقے سے البتہ ایم ایم اے جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی جیتتے آئے ہیں۔ اس دفعہ بہت حیران کن طور پر علاقے میں پہلی دفعہ نون لیگ کی جانب سے ایک خاتون ثوبیہ شاہد کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ ان کے مقابلے میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق ایم ایم اے کے امیدوار ہیں۔ جبکہ بشیر خان پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں۔ یہاں سے بھی جیپ کے نشان والے مبارک جان اور اے این پی کے نظیر خان بھی امیدوار ہیں۔ ہمارے اندازے کا مطابق ایک آسان مقابلے کے بعد ایم ایم اے کے سراج الحق جیت جائیں گے۔



 

این اے 8، مالاکنڈ

یہ حلقہ اس لئے دلچسپی کا حامل ہے کیونکہ ادھر سے بلاول بھٹو زرداری امیدوار ہیں۔ 2002 میں یہاں سے ایم ایم اے کے مولانا عنایت الرحمان منتخب ہوئے تھے، آٹھ میں پیپلز پارٹی کے لال محمد خان جبکہ تیرہ میں فتح پی ٹی آئی کے جنید اکبر کا نصیب بنی۔ اس دفعہ بلاول کے علاوہ پی ٹی آئی کے ہی جنید اکبر، نون کے عامر نواب، اے این پی کے انعام اللہ خان امیدوار ہیں۔ جنید اکبر کی حلقے میں عدم دلچسپی کی وجہ سے یہاں اصل مقابلہ نون لیگ، پیپلز پارٹی اور اے این پی کے درمیان ہے۔ یہاں ایک بہت سخت مقابلہ ہے کیونکہ اس حلقے سے چکدرہ قریب ہی واقع ہے جہاں نون لیگ نے ہسپتال بنایا ہے لیکن درگئی اور ملحقہ علاقے پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔ ہمارے اندازے میں ایک سخت مقابلے کے بعد نون لیگ کے عامر نواب خان ظفر مند رہیں گے۔

 

این اے 9 بونیر

یہ وہ حلقہ ہے جہاں معروف روحانی شخصیت حضرت بابا جی کا مزار شلبنڈی میں واقع ہے۔ بابا جی افغانی بادشاہ ظاہر شاہ کو بہت پسند کرتے تھے اور ان کے لئے اپنے مریدین (جنہیں مسکین کہا جاتا ہے) سے خصوصی دعا کرواتے تھے۔ سابق وفاقی وزیر کوثر نیازی اور صدر ضیاالحق بھی ان کے مداحین خصوصی میں شامل تھے۔ 2002 میں یہاں سے پیپلز پارٹی شیر پاؤ کے شیر اکبر خان، آٹھ میں آزاد عبدالمتین جبکہ تیرہ میں جماعت اسلامی کے شیر اکبر خان منتخب ہوئے تھے۔ اس دفعہ شیر اکبر خان نے پی ٹی آئی کا ٹکٹ لیا ہے اور ان کا مقابلہ ایک دوسرے حلقے سے سابقہ ایم این اے ایم ایم اے کے امیدوار استقبال خان سے ہے۔ گو نون لیگ کے امیدوار کامران خان بھی مقابلے میں ہیں لیکن وہ کسی گنتی میں نہیں۔ ہمارے اندازے میں اس نشست سے پی ٹی آئی کے شیر اکبر خان باآسانی جیت جائیں گے۔

 

این اے 10 شانگلہ

ضلع شانگلہ کی سرسبز وادیوں میں واقع یہ بھی ایک نیا حلقہ ہے۔ شانگلہ امیر مقام کا آبائی ضلع بھی ہے جہاں سے وہ دو ہزار دو اور آٹھ میں منتخب ہوئے تھے۔ اس دفعہ نون لیگ کے عباداللہ خان اور پی ٹی آئی کے وقار احمد خان یہاں سے امیدوار ہیں۔ پیپلز پارٹی کے حامد اقبال خان اور اے این پی کے سدید الرحمان بھی امیدوار ہیں۔ ہمارے اندازے کے مطابق ایک آسان مقابلے کے بعد نون لیگ کے عباد اللہ خان یہاں سے منتخب ہو جائیں گے۔

 

این اے 11 کوہستان

2002 میں یہاں سے ایم ایم اے کے مولوی عبدالحکیم، آٹھ میں آزاد محبوب اللہ جبکہ تیرہ میں آزاد امیدوار سرزمین یہاں سے منتخب ہوئے تھے۔ انتہائی پسماندہ، تعلیم سے کوسوں دور یہ علاقہ شاہراہ قراقرم کے مسافروں کے لئے رات کو پڑنے والے ڈاکوؤں کی وجہ سے بھی مشہور رہا ہے۔ ایک شادی کی تقریب میں تالیاں بجاتی لڑکیوں کا قتل بھی اسی علاقے کا ایک بدنما داغ ہے۔ اس دفعہ یہاں سے نون لیگ کے حاجی مصر خان، ایم ایم اے کے آفرین خان جبکہ جیپ کے نشان پر آزاد امیدوار سید گل بادشاہ امیدوار ہیں۔ انتہائی دلچسپی کا امر ہے کہ کراچی کی پی ایس پی کا بھی یہاں سے جمعہ دین امیدوار ہے۔ ہمارے اندازے میں یہاں سے آزاد امیدوار سید گل بادشاہ فتحیاب ہوں گے۔

 

این اے 11 کوہستان

یہ بھی ایک نیا حلقہ ہے۔ یہاں سے کل چار امیدوار میدان میں ہیں جن میں قومی وطن پارٹی کے نورالامین، پیپلز پارٹی کے ملک نور ولی جبکہ محمد یاسین اور محمد نصیر آزاد امیدوار ہیں۔ یہاں سے ہمارے اندازے میں قومی وطن پارٹی کے نورالامین جیتیں گے۔

 

این اے 12 بٹگرام

دو ہزار دو میں یہاں سے ایم اہم اے کے قاری یوسف، آٹھ میں قاف لیگ کے نواز خان جبکہ تیرہ میں جمعیت علمائے اسلام ف کے قاری یوسف منتخب ہوئے تھے۔ اس دفعہ یہاں سے قاری یوسف ایم ایم اے کے ٹکٹ پر امیدوار ہیں۔ ان کا مقابلہ اے این پی کے مصباح اللہ بابر، قومی وطن پارٹی کے رستم خان اور پیپلز پارٹی کے سردار ملک جان سے ہے۔ پی ٹی آئی کے نواز خان بھی یہاں سے قسمت آزما رہے ہیں۔ ہمارے اندازے میں ایک بھاری اکثریت سے ایم ایم اے کے قاری یوسف یہاں سے فتح یاب ہوں گے۔

این اے 13 مانسہرہ

مانسہرہ روایتی طور پر نون لیگ کا گڑھ رہا ہے۔ مانسہرہ ناران روڈ کی نوے کی دہائی میں  نواز دور میں تعمیر سے یہاں ترقی کی نئی راہیں کھل گئی تھیں جس کی وجہ سے عوام نے نون لیگ کو بہت پذیرائی بخشی۔ دو ہزار دو میں نون سے قاف میں جانے والے سردار شاہجہاں یوسف منتخب ہوئے تھے۔ اس وقت مشرف کو اقتدار میں لانے میں بہت معاون اس وقت کراچی کے کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی بھی آزاد الیکشن لڑے، لیکن ہار گئے۔ آٹھ میں بھی سردار یوسف قاف کے ہی ٹکٹ پر جیتے جبکہ تیرہ میں وہ نون میں واپس آ کر بھاری اکثریت سے جیتے تھے۔ سردار بعد میں وفاقی وزیر مذہبی امور بنے۔ حج کے متنازعہ ہو چکے محکمہ کو انہوں نے اس خوبی سے بحالی نو سے گزارا کہ پاکستانی سرکاری حج اعلیٰ معیار کی مثال بن کر رہ گیا۔ اس دفعہ ان کا مقابلہ ایم ایم اے کے بصیر خان، تحریک لبیک کے عامر شہزاد اور پی ایس پی کے محمد جاوید سے ہے۔ یہاں سے اے این پی کی خاتون امیدوار عفت کلثوم بھی میدان میں ہیں۔ ہمارے اندازے میں نون لیگ کے سردار شاہجہاں یوسف بھاری اکثریت سے کامیاب ہوں گے۔



 

این اے 14 مانسہرہ تورغر

کیپٹن صفدر کے آبائی حلقے سے کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے بعد ان کے بھائی محمد سجاد اعوان یہاں سے نون لیگ کے امیدوار ہیں۔ دو ہزار دو میں یہاں سے ایم ایم اے کے مولانا عبدالمالک منتخب ہوئے تھے، آٹھ میں آزاد فیض اللہ خان جبکہ تیرہ میں نون کے کیپٹن صفدر منتخب ہوئے تھے۔ اس دفعہ ایم ایم اے کے کفایت اللہ، پی ٹی آئی کے زرگل خان اور تحریک لبیک کے قاضی طیب کے ساتھ ساتھ اے این پی کے محمد آصف بھی میدان میں ہیں۔ کیپٹن صفدر کی گرفتاری سے پیدا ہونے والی ہمدردی کی لہر کے باعث نون لیگ کے محمد سجاد اعوان کی یہاں سے جیت یقینی ہے۔

 

این اے 15 ایبٹ آباد

یہ حلقہ مرحوم ائر مارشل اصغر خان کا وہ حلقہ ہے جہاں سے وہ کبھی نہیں جیت سکے۔ دو ہزار دو میں قاف لیگ کے امان اللہ جدون، آٹھ میں مرتضیٰ جاوید عباسی جبکہ تیرہ میں بھی مرتضیٰ جاوید عباسی منتخب ہو کر ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئے تھے۔ اس حلقے کا پچاس فیصد علاقہ ایبٹ آباد اور پچاس فیصد گلیات پر مشتمل ہے۔ اس دفعہ یہاں ایک زبردست مقابلہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ نون لیگ کے مرتضیٰ جاوید عباسی کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے اصغر خان کے بیٹے علی اصغر خان ہیں۔ گو ایم ایم اے اور پیپلز پارٹی بھی مقابلے میں ہیں لیکن پی ٹی آئی اور نون لیگ کے مابین ایک گھمسان کا رن دیکھنے کو مل رہا ہے۔ گلیات میں علی اصغر جبکہ ایبٹ آباد میں مرتضیٰ عباسی کو برتری حاصل ہے۔ نون لیگ کو نتھیا گلی میں ہونے والے عمران خان کے اس جلسے سے بڑی ڈھارس ملی ہے جس میں آدھے سے زیادہ گراؤنڈ خالی تھا۔ وہ اس دن ہونے والی تیز بارش کو نظر انداز کر رہے ہیں جو کہ جلسے میں لوگوں کی کم تعداد کا ایک بڑا باعث تھی۔ ہمارے اندازے میں ایک دندان شکن مقابلے کے بعد یہاں سے نون لیگ کے مرتضیٰ جاوید عباسی فتح یاب ہوں گے۔

 

این اے 16 ایبٹ آباد

اس حلقے میں جدون ذات کا غلبہ ہے جو یہاں سے کئی دفعہ جیتے ہیں۔ دو ہزار دو میں یہاں سے قاف لیگ کے امان اللہ خان جدون، آٹھ میں نون کے سابق وزیر اعلیٰ  سردار مہتاب احمد خان جبکہ تیرہ میں پی ٹی آئی کے اظہر جدون منتخب ہوئے تھے۔ اس دفعہ پی ٹی آئی نے علی جدون کو ٹکٹ دیا ہے۔ ان کا مقابلہ نون لیگ کے مہابت خان، جیپ کے سوار محمد روحیل اور اے این پی کے محمد ارشاد سے ہے۔

ہمارے اندازے کے مطابق ایک آسان مقابلے کے بعد پی ٹی آئی کے علی جدون یہ سیٹ جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

 

این اے 17 ہری پور

یہ ایک دلچسپ حلقہ ہے۔ تیرہ میں یہاں سے نون کے عمر ایوب منتخب ہوئے۔ انتخابی عزرداری میں فیصلے کے مطابق حلقے میں ری الیکشن ہوا۔ عمر ایوب پہلے ایک سخت مقابلے کے بعد تین ہزار ووٹوں سے جیتےتھے۔ ری الیکشن میں نون نے ان کی بجائے بابر نواز کو ٹکٹ دیا جنہوں نے تیس ہزار کی لیڈ سے وہ الیکشن جیتا۔ دو ہزار دو میں یہاں سے عمر ایوب منتخب ہو کر وفاقی وزیر مملکت مقرر ہوئے تھے۔ اس سے پہلے ان کے والد بارہ سال نون لیگ میں رہ کر سپیکر اسمبلی اور وفاقی وزیر خارجہ رہ چکے تھے۔ جوانی کے جوش میں عمر ایوب ٹی وی پر شعلہ بیانی سے کام لیتے اور نون لیگ پر بھرپور تنقید کرتے۔ آٹھ میں انہیں نون لیگ کے سردار مشتاق نے جب ہزیمت سے دوچار کیا تو ان کا سارا جوش ٹھنڈا پڑ گیا اور وہ نون کا حصہ بن گئے۔ تیرہ میں ری الیکشن میں ٹکٹ نہ ملنے پر وہ اتنا دلبرداشتہ ہوئے کہ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس دفعہ وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر امیدوار ہیں جبکہ نون کے سابقہ ایم این اے بابر نواز ان کے حریف ہیں۔ اے این پی کی خاتون امیدوار ارم فاطمہ اور پیپلز پارٹی کی بھی خاتون امیدوار شائستہ ناز مقابلے میں ہیں۔ نون کے بابر نواز ایک آسان فتح سمیٹتے نظر آ رہے ہیں۔



 

این اے 18 صوابی

سابق صوبائی اسمبلی سپیکر اسد قیصر کا یہ آبائی حلقہ ہے جہاں ان کے پرائیویٹ سکول سسٹم کی ایک چین بھی ہے۔ دو ہزار دو میں یہاں سے ایم ایم اے کے مولانا خلیل احمد، آٹھ میں اے این پی کے پرویز خان  جبکہ تیرہ میں اسد قیصر پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔ اس دفعہ وہ پھر پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر امیدوار ہیں۔ ان کا مقابلہ نون لیگ کے سجاد احمد، اے این پی کے اسلام خان، جیپ سوار فضل اکرم اور ایم ایم اے کے فضل علی سے ہے۔ اسد قیصر نے حلقے میں بھرپور توجہ دی تھی اور کئی ترقیاتی کام کرائے۔

ہمارے اندازے میں یہاں سے پی ٹی آی کے اسد قیصر کی جیت یقینی ہے۔



 

این اے 19 صوابی

یہ مرحوم صدر غلام اسحاق خان کا آبائی حلقہ ہے جہاں مشہور جی آئی کے یونیورسٹی ٹوپی بھی واقع ہے۔ اس حلقے سے دو ہزار دو میں ایم ایم اے کے محمد عثمان، آٹھ میں آزاد انجینیئر عثمان ترہ کئی جبکہ تیرہ میں بھی وہ عوامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پر جیتے۔ اس دفعہ انہوں نے ٹکٹ کے لئے پی ٹی آئی کو ترجیح دی ہے۔ مقابلے میں نون کے عمران اللہ، ایم ایم اے کے عطا الحق، پیپلز پارٹی کے محمد نعیم  اور اے این پی کے وارث خان ہیں۔ گذشتہ تجربے اور حلقے میں اچھی ساکھ کے پیش نظر ہمارے اندازے میں اس حلقے سے پی ٹی آئی کے انجینیئر عثمان خان ترہ کئی جیتیں گے۔

این اے 20 مردان

چونکہ یہ ایک نیا حلقہ ہے اس لئے اس کا پچھلا ریکارڈ نہیں ہے۔ یہاں سے نون کے اختر نواز، ایم ایم اے کے مولانا عطا الرحمان، اے این پی کے گل نواز خان اور پی ٹی آئی کے مجاہد علی امیدوار ہیں۔ ہمارے اندازے کے مطابق یہاں سے اے این پی کے گل نواز خان جیتیں گے۔

 

اگلا حصّہ یہاں پڑھیے: عام انتخابات، ایک غیر جانبدار سیٹ ٹو سیٹ جائزہ - حصّہ دوم
مزیدخبریں