عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے عدلیہ مخالف ویڈیو جاری کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کی، جہاں ملزم مولوی افتخار الدین مرزا پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران ملزم افتخار الدین مرزا نے صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ توہین عدالت کیس میں اپنا دفاع کریں گے، لہٰذا ٹرائل کورٹ کے فیصلے تک عدالت عظمیٰ کارروائی روکے۔
اس پر بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ میں مقدمہ صرف توہین عدالت کا ہے، معافی ناموں کے باوجود صحت جرم سے انکاری ہیں تو یہ آپ کی مرضی ہے۔
عدالت میں سماعت کے دوران وکیل افتخار الدین نے ایک ہی ویڈیو پر 2 مقدمات بننے پر اعتراض کیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک ویڈیو میں 4 قوانین پامال کیے گئے ہیں تو ہر ادارہ مروجہ طریقے سے اپنے قانون کا اطلاق کرے گا جبکہ ٹرائل کورٹ اپنے شواہد پر فیصلہ کرے گی۔ ساتھ ہی جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سائبر کرائم اور دہشت گردی کے قوانین کا توہین عدالت سے تعلق نہیں، ویڈیو میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو دھمکی دی گئی جو فوجداری جرم ہے، ہر جرم کے ٹرائل کا طریقہ، شواہد اورسزا الگ ہوتی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ٹرائل کورٹ اپنے شواہد پر فیصلہ کرے گی، جس کے بعد عدالت نے افتخار الدین مرزا کی سماعت روکنے کی استدعا مسترد کردی۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر استغاثہ سے گواہان اور شواہد طلب کر لیے جبکہ ملزم کے وکیل کو چارج اور اس کے تمام ثبوت کی کاپیاں فراہم کرنے کی ہدایت کردی، اب اس کیس کی مزید سماعت 3 ہفتے بعد ہوگی۔
علاوہ ازیں وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے جمع کروائی گئی پیش رفت رپورٹ میں بتایا گیا کہ موبائل ریکارڈ کے مطابق ملزم کے 486 نمبرز کی فہرست میں سابق فوجی افسران اور سویلین شامل ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ ملزم کے بیرون ممالک رابطے ہیں جب کہ زیادہ رابطے والے 26 نمبرز کا ویڈیو سے کوئی تعلق نہیں۔ مزید یہ کہ افتخار الدین مرزا کے 19 بینک اکاؤنٹس کی تحقیقات بھی جاری ہیں۔
یاد رہے کہ گذشتہ ماہ آغا افتخار الدین کی ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں موصوف سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کو چوک میں کھڑا کر کے پھانسی دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ انہوں نے ججز کو نواز شریف اور زرداری کا پالتو قرار دیا تھا اور افواجِ پاکستان سے گذارش کی تھی کہ وہ اگر ملک کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو ان لوگوں کی صفائی ضروری ہے۔ اس ویڈیو میں صحافی حامد میر اور محمد مالک کی تصاویر بھی دکھائی گئی تھیں اور ان کو بھی کرپٹ اور چور کہا گیا تھا جب کہ مولانا طارق جمیل کے میڈیا کو جھوٹا کہنے پر معافی مانگنے پر تاسف کا اظہار کیا گیا تھا۔
بعد ازاں جب سپریم کورٹ میں اس کیس کو اٹھایا گیا تو افتخارالدین مرزا نے غیر مشروط معافی مانگ لی تھی اور کہا تھا کہ انہوں نے نجی محفل میں یہ بات کی تھی، پر یہ ویڈیو کسی نے بنا لی اور یوٹیوب پر ڈال دی۔ اٹارنی جنرل نے اس پر جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس ویڈیو میں تصاویر بھی شامل کی گئیں اور یہ واضح طور پر ایک پیشہ ور شخص کی بنائی ہوئی ویڈیو ہے اور جس یوٹیوب چینل پر اسے اپلوڈ کیا گیا، اس کے بارے میں بھی دعویٰ ہے کہ یہ افتخار الدین مرزا کی ملکیت ہے۔
تاہم، اب مولوی صاحب نے معافی نامہ جمع کروانے کے ساتھ ساتھ صحتِ جرم سے انکار کر دیا ہے۔
چند روز قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے سپریم کورٹ میں 24 سوالات جمع کروائے تھے جن میں انہوں نے پوچھا تھا کہ ایف آئی اے نے اب تک جو تحقیقات کی ہیں، ان سے ہمیں باخبر کیوں نہیں رکھا جا رہا؟ مجرم کے خلاف درج ایف آئی آر کی کاپی اب تک انہیں فراہم نہیں کی گئی اور نہ ہی اس کیس میں تفتیشی عمل پر انہیں اب تک کچھ بتایا گیا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ انہوں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ آیا اب تک ملک کی اہم ترین انٹیلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ سے اس بابت رابطہ کیا گیا ہے یا نہیں۔ ان سوالات میں سپریم کورٹ کے ججز کے اس سلسلے میں کنڈکٹ کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے گئے تھے اور یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ جب افتخار الدین مرزا سپریم کورٹ آیا، یہاں بیٹھ کر چائے پی اور انتہائی پرسکون انداز میں بیٹھا رہا تو اس وقت اس کی گرفتاری عمل میں کیوں نہیں لائی گئی؟