بلوچستان کے کیس میں درج بالا مرض کی بالکل صحیح تشخیص ہو سکتی ہے۔ بلوچستان گذشتہ سات دہائیوں سے احساسِ کمتری اور محرمیوں کا شکار ہے اور اسی مایوسی و محرومی نے یہاں کے نوجوانوں کو غلط راستے کی طرف دھکیلا۔ جہاں وفاقی حکومتوں نے بلوچستان کو نظر انداز کئے رکھا، وہیں اس صوبے کے مقامی لیڈروں، سرداروں، افسروں اور حتی کہ قوم پرست طبقہ نے بھی اپنوں کا گوشت کھانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔
بلوچستان میں جہاں پہلے ہی تعلیم کا فقدان اور بے روزگاری ہے، وہیں باقی صوبوں کے لوگ جعلی ڈومیسائل بنا کر وہاں کی محرومیوں میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ 1972 کے بعد جب سے یہ قانون لاگو کیا گیا کہ بلوچستان میں جو کوئی بھی تین سال کا وقت پورا کرے وہ وہاں کا ڈومیسائل حاصل کرنے کا جواز رکھتا ہے، اُس وقت سے دیگر صوبوں کے لوگوں نے اس سہولت کا بےجا فائدہ اٹھایا۔
ستم ظریفی یہ کہ آج تک کسی کی نظر اس صوبے کے مسائل پر نہیں پڑی۔ چونکہ بلوچستان میں شرح خواندگی نہ ہونے کے برابر ہے اور وہاں کے لوگوں کو اپنے کوٹہ سسٹم کے بارے میں کچھ خاص علم بھی نہیں، لہذا دیگر صوبوں کے لوگوں نے اپنے فائدے کے لئے لوکل ڈومیسائل بنا کر ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا۔ ناصرف ان لوگوں نے بلوچستان کے نام پر مختص سیٹوں پر اپنی نوکریاں پکی کیں بلکہ مختلف تعلیمی اداروں میں بلوچیوں کے لئے مختص کوٹے کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور ہر طرح سے بلوچستان کے مقامی لوگوں کے حقوق سلب کرنے میں مصروف رہے۔
پچھلے سال گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے چار طالب علم نکل آئے جنہوں نے جعلی ڈومیسائل بنا کر بلوچستان کے طلبہ کے لئے مختص سیٹوں پر داخلہ لیا تھا۔ بلوچ طلبہ کے شور مچانے پر ان کا داخلہ منسوخ کیا گیا۔
ایک بات جو ابھی تک میں نہیں سمجھ سکا کہ آخر کس منطق کے تحت یہ قانون بنایا گیا کہ جو بھی بلوچستان میں تین سال قیام کر لے تو وہ وہاں کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرسکتا ہے اور یوں وہ بلوچستان کے وسائل اور وہاں کے کوٹہ سسٹم سے مستفید ہو سکتا ہے۔ اور یہ بات بھی عیاں ہے کہ بعد میں اس قانون کو وہاں کے سول اور عسکری افسران نے بھرپور استعمال کیا اور اپنوں کو بےتحاشا نوازا۔ اس قانون سے ناصرف پاکستان کے دیگر صوبوں کے شہریوں نے فائدہ اٹھایا بلکہ وہاں افغان مہاجرین نے بھی زمینیں خریدنے کے لئے جعلی ڈومیسائل بنوائے اور اپنے آپ کو وہاں کا مقامی ڈیکلیئر کروایا۔ یہ جعلی ڈومیسائل باآسانی پانچ سے دس ہزار میں بن جاتا تھا اور یوں گذشتہ کئی دہائیوں سے وہاں کے لوگوں کو مزید محروم کیا جاتا رہا۔
پچھلے کچھ عرصے سے جب بلوچستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو علم ہوا تو انہوں نے اس مسئلے کو سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر اٹھایا اور اس کے خلاف کمپین چلائی جس کی وجہ یہ مسئلہ میڈیا اور ایوان بالا کے کانوں میں سنائی دیا۔ اس مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف مستونگ کے علاقہ سے چار سو سے زائد جعلی ڈومیسائل برآمد ہوئے۔ اور تونسہ شریف سے ایک لڑکے کو پکڑا گیا جس پر پچیس ہزار سے زائد جعلی ڈومیسائل بنانے کا الزام ہے۔ خاص طور پر ان جعلی ڈومیسائل کو مقابلے کے امتحانات میں بےدریغ استعمال کیا گیا۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس بڑے پیمانے پر یہاں کے لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے اور انھیں مزید تاریکیوں اور محرومیوں کے شکنجوں میں جکڑ دیا گیا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کس کو مجرم ٹھہرایا جائے کیونکہ اس بہتی گنگا میں سب نے ہاتھ دھوئے ہیں۔ کس افسر سے تفتیش کی جائے کیونکہ مقامی کونسلر سے لے کر ایس ایچ اوز، تحصیلدار، پٹواری، قانون دان اور قبائلی شخصیات تک اس جرم میں ملوث ہیں۔ کس کس کے ڈومیسائل کی جانچ پڑتال کی جائے کیونکہ اس وقت بلوچستان کے ڈومیسائل پر صرف وفاق میں 22766 سرکاری ملازمین ہیں۔
بلوچستان کی حکومت نے اس بار ایکشن لینے کا فیصلہ تو کیا ہے لیکن ان کے طریقہ کار پر بھی بہت سارے سوالات اٹھتے ہیں کیونکہ جن کے زیرِسایہ یہ جعلی ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ بنائے گئے، انہی لوگوں کو تفتیشی کمیٹی کے ارکان میں شامل کیا گیا ہے جو لازمی طور پر اپنے آپ کو اور پیٹی بند بھائیوں کو ہر حال میں بچائیں گے۔ اور اس طرح اس میں سینئر سول اور عسکری افسران بھی شامل ہیں۔ ان لوگوں کے خلاف یہ کمیٹی کیسے کام کرے گی جو کمیٹی ارکان کے جونئیر افسران پر ضرور دباؤ ڈالیں گے۔
لہذا حکومتِ بلوچستان کو چاہیے کہ ایک آزاد کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ آزادانہ اور مؤثر جانچ پڑتال کی جا سکے۔ اس کے ساتھ حکومت کو چاہیے کہ اس قانون میں اصلاحات کریں کہ آئندہ کوئی جعلی ڈومیسائل حاصل نہ کرسکے۔ یہ مسئلہ صرف سوشل میڈیا پر شور مچانے سے حل نہیں ہوگا بلکہ موجود قانون میں آئین کی روشنی میں اہم اصلاحات و ترامیم کرنا ہی اس کا واحد حل ہے۔ اگر اس کو وقت پر حل نہ کیا گیا تو بلوچستان کے نوجوانوں میں مزید مایوسی اور احساسِ کمتری جنم لےگی جس کے سنگین نتائج ناگزیر ہیں۔