آسیہ جمیل (ایمان) کا تعلق پشاور سے ہے اور انھوں نے انگریزی ادب میں تعلیم حاصل کی اور درس و تدریس کے ساتھ ساتھ انھوں نے غیر ملکی اداروں کے ساتھ کام کیا۔
انھوں نے نیا دور میڈیا کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے کتاب میں پشتون علاقوں میں جنس کی بنیاد پر ہونے والے مظالم کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی کم عمری میں شادی پر بات کی ہے کہ وہ لڑکیاں کن مسائل سے دوچار ہوتی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ میں نے پاکستان میں بچوں کے نفسیات پر بات کی ہے کہ ہم بچپن میں کس طرح لڑکیوں کو گڑیا اور دیگر کھلونے دیتے ہیں لیکن لڑکوں کو ہم جہاز، گاڑی اور دیگر کھلونے دیتے ہیں اور یہی سے حق تلفی کی ابتدا ہوتی ہے کہ ہم اپنے بچوں کے ذہنوں میں پروان چڑھا رہے ہیں کہ لڑکے نے کس شعبے میں جانا ہے اور لڑکی کونسا شعبہ اپنائے گی۔
انھوں نے مزید کہا کہ کتاب کے دوسرے حصے میں پشتون علاقوں میں شوبز اور گانوں پر بات کی ہے جس میں مرد کو ہیرو پیش کیا جاتا ہے اور خواتین کی کوئی بات نہیں، اگر ہے بھی ان کو کمتر پیش کرنے کا یا ان کے جسم کی خوبصورتی کا تاثر ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ان گانوں میں مرد کو بہادر اور مضبوط کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جبکہ خواتین کو کمزور یا صنف نازک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے مگر اس کتاب میں دو خواتین کرداروں کا ذکر ہے ایک وہ جو حالات سے شکست کھا جاتی ہے اور ایک وہ جو حالات کا ڈٹ کا مقابلہ کرتی ہے۔
آسیہ کہتی ہے کہ اس کتاب میں خواتین کے دو کرداروں پر بات کی گئی ہے ایک فاغوندہ اور ایک بریخنہ جو دونوں ایک تنگ نظر معاشرے میں زندگیاں گزار رہی ہیں۔ مگر اس کتاب کی ساری توجہ فاغوندہ ہے جن کے کوکھ سے دو بیٹیوں کے بعد ایک خواجہ سرا پیدا ہوتا ہے جن کی وجہ سے فاغوندہ کو طعنے مل رہے ہیں اور وہ مجبورآ اپنے بچے کو خواجہ سراؤں کے ایک گوروں کے حوالے کرتی ہے مگر اندر سے بچے کے بچھڑ جانے کا غم ان کو ختم کررہی ہے اور ساتھ ساتھ بیٹا نہ پیدا کرنے کے طعنے سن کر ذہنی اذیت سے گزارتی ہے اور آخر کار مجبور ہوکر وہ خودکشی کرلیتی ہے۔
دوسرا کردار بریخنہ کا ہے جو مظالم کے خلاف آواز اُٹھاتی ہے اور چپ نہیں رہتی اور فاغوندہ کے مرنے کے بعد وہ گوروں سے ان کا بچہ واپس لاتی ہے اور ان کے تربیت میں لگ جاتی ہے اور بعد میں ٖفاغوندہ کا وہ بچہ ایک لکھاری بن جاتا ہے۔
آسیہ کہتی ہے کہ ان کرداروں سے ایک پیغام میں نے دیا ہے اور وہ ہے کہ ہمارے گھروں میں جنم لینے والے خواجہ سراؤں کو ایک بچے کے طور پر قبول کرنا چاہیے اور ان دیگر بچوں کی طرح وہ بھی مساوی سلوک کے حقدار ہوتے ہیں۔
آسیہ نے مزید کہا کہ میرا تعلق ایک عام گھرانے سے ہیں اور میں بھی ان حالات سے گزری ہو اس لئے میں نے کوشش کی کہ میں ان کرداروں پر لکھوں جن پر بات کرنا اور لکھنا کلچر اور پشتون معاشرے کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔
آسیہ نے مزید کہا کہ ان کے کام کو بین الاقوامی سطح پر سراہاں گیا ہے اور حال ہی میں امریکہ کے ایک ادارے نے دنیا بھر سے دس خواتین کا انتخاب کیا ہے جن کے کام کا معاشرے پر اثر پڑا ہے اور میرا نام بھی اس میں شامل ہے۔