اس سے پہلے کہ ان کے انٹرویو کے حقائق بتائے جائیں، ضروری ہے کہ عاقب جاوید کے متعلق وہ ضروری معلومات قارئین تک پہنچائی جائیں جو ان کے انکشافات کو اہم بناتی ہیں۔
عاقب جاوید پنجاب کے شہر شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے ایک میڈیم فاسٹ باؤلر تھے، جنہوں نے 16 سال کی عمر میں پاکستان کے لئے کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا، جب 1988 میں آسٹریلیا میں کھیلے جانے والی بنسن اینڈ ہیجز ورلڈ سیریز کے دوران پاکستان نے ویسٹ انڈیز کے خلاف اپنا میچ کھیلا۔ ساڑھے 17 برس کی عمر میں نیوزی لینڈ کے خلاف پاکستان کے لئے ٹیسٹ کرکٹ میں debut کیا۔
عمران خان، وسیم اکرم اور وقار یونس جیسے عظیم باؤلرز کے دور میں عاقب جاوید نے ٹیم میں نہ صرف اپنی جگہ بنائی بلکہ 1992 کے ورلڈ کپ میں شاندار کارکردگی دکھا کر پاکستان کی تاریخی فتح میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ورلڈ کپ کے فائنل میں بھی انہوں نے اپنے 10 اوورز میں محض 27 رنز دے کر دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور ان کی آؤٹ سوئنگ نے برطانوی بلے بازوں کو پورے میچ میں پریشان کیے رکھا۔ اس میچ میں انہوں نے سب سے کم اوسط سے رنز دیے اور انگلینڈ کے لئے میچ کو انتہائی مشکل بنا دیا۔ اوپنر گراہم گوچ کے علاوہ مایہ ناز بلے باز نیل فیئر برادر جو کہ اس وقت پچ پر ٹھہر گئے تھے، اور پاکستان کے لئے مشکلات کھڑی کر سکتے تھے، بھی عاقب ہی کا نشانہ بنے۔ تو پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ صرف چھ سال بعد 25 سال کی عمر میں عاقب جاوید کا کریئر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا؟
ایک نجی ٹی وی چینل کے ساتھ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں عاقب جاوید نے انکشاف کیا کہ ان کے کریئر کے خاتمے کی وجہ ان کا میچ فکسنگ کے خلاف سخت مؤقف تھا۔
عاقب جاوید نے کہا کہ ایک سابق پاکستانی کرکٹر سلیم پرویز اس زمانے میں کرکٹرز سے مل کر انہیں میچ فکس کرنے کے لئے پیشکش کیا کرتے تھے۔ اور انہوں نے ہی بکیوں اور جواریوں کے ساتھ پاکستانی کھلاڑیوں کو ملوانا شروع کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ان کو بھی بکیوں سے ملوانے کی اسی انداز میں کوشش کی گئی تو انہوں نے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے ملنے سے انکار کر دیا لیکن اس فیصلے نے ان کا بین الاقوامی کرکٹ کریئر ہی ختم کر دیا۔
انٹرویو کے دوران عاقب جاوید نے کہا کہ کھلاڑیوں کو بڑی بڑی مہنگی گاڑیاں اور لاکھوں، کروڑوں روپے دیے جاتے تھے۔ مجھے بھی میچز فکس کرنے کے لئے کہا گیا اور بتایا گیا کہ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو میرا کریئر ختم کر دیا جائے گا۔
یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ سلیم پرویز نامی کردار کون ہے؟
سلیم پرویز ایک پاکستانی کرکٹر تھے جو 1980 میں ویسٹ انڈیز کے دورہ پاکستان کے دوران ایک ون ڈے انٹرنیشنل کھیلنے میں بھی کامیاب ہو گئے تھے لیکن اس کے بعد کبھی دوبارہ قومی ٹیم میں جگہ نہ بنا سکے۔ 2013 میں ان کا انتقال ہو گیا تھا لیکن انہوں نے 1998 کی ملک قیوم میچ فکسنگ رپورٹ میں یہ تسلیم کیا تھا کہ انہوں نے سابق پاکستانی کپتان سلیم ملک اور معروف لیگ سپنر مشتاق احمد کو رقم کی پیشکش کی تھی۔ میچ فکسنگ میں سلیم ملک کے کردار، اور ملک قیوم رپورٹ کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ گذشتہ ماہ نیا دور پر شائع ہو چکی ہے۔
ملک قیوم رپورٹ میں یہ بھی واضح ہے کہ عامر سہیل میچ فکسنگ کے خلاف عاقب جاوید کے ایک اتحادی تھے اور ملک قیوم رپورٹ کی انکوائری کے دوران انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ سلیم پرویز نے انہیں خود بتایا تھا کہ اس نے سابق پاکستانی کپتان وقار یونس اور بعد ازاں پاکستان کے کپتان بننے والے انظمام الحق کو بھی رقوم دی تھیں۔ یہ بیان ملک قیوم انکوائری رپورٹ کا بھی حصہ ہے۔
عاقب جاوید نے بھی 1998 میں ہونے والی تحقیقات کے دوران ایک بیان دیتے ہوئے سابق کپتان وسیم اکرم پر الزام عائد کیا تھا کہ 1992 ورلڈ کپ فائنل کے مین آف دی میچ نے انہیں ٹیم سے اس لئے باہر رکھا کیونکہ انہوں نے میچ فکس کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ انہیں سلیم پرویز سے رابطہ کرنے کو کہا گیا تھا اور ہدایات دی گئی تھیں کہ ان سے ایک گاڑی اور 40 لاکھ روپے لے لوں اور یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ جب انہوں نے یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا تو وسیم اکرم نے ان کو دھمکی دی تھی کہ جب تک وہ کپتان ہیں، عاقب جاوید پاکستانی ٹیم میں نہیں کھیلیں گے۔
اس بیان کے بعد عاقب جاوید کا کرکٹ کریئر اچانک ہی ختم ہو گیا اور 22 ٹیسٹس میں 54 اور 163 ون ڈے انٹرنیشنلز میں 182 وکٹیں لینے والا یہ سوئنگ باؤلر 25 سال کی عمر میں کرکٹ کو خیرباد کہہ گیا۔ حالیہ انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ انہیں کسی بات پر کوئی پچھتاوا نہیں کیونکہ انہوں نے جو کیا وہ درست تھا۔
بعد ازاں عاقب جاوید کوچنگ کی دنیا میں بھی نام کمایا، پاکستان انڈر 19 ٹیم کو ورلڈ کپ جتوایا، یو اے ای کے ہیڈ کوچ رہے، پاکستان ٹیم کے باؤلنگ کوچ اور پاکستان نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے ہیڈ کوچ بھی رہے۔ آج کل وہ پاکستان سوپر لیگ فرنچائز لاہور قلندرز کے ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز اور ہیڈ کوچ ہیں۔