تفصیلات کے مطابق نیب نے مسلم لیگ ن کے رہنماء خواجہ آصف کی ضمانت سے متعلق دائر درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے سماعت کی ، جس میں جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس شہباز رضوی شامل ہیں ، جب کہ درخواست ضمانت پر دلائل تین دن میں مکمل کیے گئے جس کے بعد عدالت نے فیصلہ سنا یا جس میں آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے خواجہ آصف کی ضمانت منظور کرلی گئی۔
خواجہ آصف کو 29 دسمبر 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ خواجہ آصف نے درخواست ضمانت 27 مارچ 2021 کو دائر کی تھی۔ مسلم لیگ ن کے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف کو دسمبر2020 میں اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا تھا ، خواجہ آصف کی گرفتاری کے بعد نیب نے مؤقف دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملزم خواجہ آصف نے مبینہ طور پر اپنی آمدن سے زائد اثاثہ جات بنائے جب کہ اثاثہ جات کی نوعیت، ذرائع اور منتقلی کو بھی چھپایا ، نیب کا کہنا تھا کہ ملزم خواجہ آصف کی بیرون ملک ملازمت کا معاملہ عدالت عالیہ اور عدالت عظمٰی میں بھی زیر سماعت رہا جہاں قرار دیا گیا کہ ملزم خواجہ آصف کے پبلک آفس رکھنے اور پرائیویٹ نوکری میں کوئی قانونی قدغن نہیں جب کہ نیب انکوائری کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ کیا خواجہ آصف کی ظاہر کردہ بیرونی آمدن درست ہے یا نہیں ، خواجہ آصف کو متعدد مواقع دیے گیے لیکن وہ مطمن نہیں کر سکے۔
نیب نے عدالت کو بتایا کہ خواجہ آصف کے پاس 2004 سے 2008 تک غیر ملکی اقامہ رہا، انہوں نے بطور کنسلٹنٹ لیگل ایڈوائزر کے 13 کروڑ 60 لاکھ روپے وصول کیے ، خواجہ آصف کو لی گئی تنخواہ سمیت دیگر تفصیلات جمع کروانے کی ہدایت کی گئی تھی ، انہیں کمپنی کو دی گئی نوکری کی درخواست جمع کروانے کا کہا گیا ، نیب کی جانب سے خواجہ آصف کو اقامہ ایگریمنٹ بھی نیب کو جمع کروانے کا کہا گیا تاہم وہ دوران تفتیش مسلسل عدم تعاون کرتے رہے ہیں ، اس کے علاوہ بینک کے چپڑاسی نے خواجہ آصف کے اکاؤنٹ میں اٹھائیس ملین سے زائد رقم جمع کرائی ، مبینہ طور پر رہنما کے بھتیجے نے بھی20 ملین جمع کرائے اور خواجہ آصف کو2 ملازمین نے35 ملین روپے کی ٹرانزیکشنز کیں۔