انہوں نے وضاحت کیا کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے، سیاست میں غلطیاں بھی ہوتی ہیں، وہ حلف نہ اٹھایا ہوتا تو آج یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا، ہم اس لیے آگئے کہ انتشار نہ ہو، ملک انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا لیکن آپ کو ہمارا یہاں آنا گوارا نہیں ہوا۔سعد رفیق نے کہا کہ اس مرتبہ پاکستان کے ساتھ بہت ہی بڑا ہاتھ ہوا، نئے پاکستان کے نام پر ایسے ایسے خواب دکھائے گئے، وزیراعظم ہاؤس کی گاڑی بیچی گئی پھر مہنگی خریدی گئیں اب نئی کہانی یہ آگئی کہ ایئرپورٹس اور موٹرویز کو گروی رکھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو افراد یہ ایئرپورٹس اور موٹرویز بناتے ہیں وہ مجرم اور چور ہوئے تو جو گروی رکھتے ہیں انہیں کیا کہا جائے یہ سوال سب سے ہے اور ان سے بھی ہے جو انہیں لے کر آتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ قومی اثاثے گروی رکھنے کی باتیں ہورہی ہیں لیکن ایسا نہیں کرنے دیا جائے گا، اپوزیشن میں جتنی بھی سکت ہے اس کی مخالفت کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ جب ایوان شروع ہوا تو قائد حزب اختلاف نے چارٹر آف اکانومی کی بات کی جس کا مذاق اڑایا، تماشہ بنایا گیا اور کہا گیا کہ این آر او مانگتے ہیں جو بھی ڈھنگ کی بات کی گئی اسے اہمیت نہیں دی گئی لیکن کوئی بھی قوم معاشی خودمختاری کے بغیر آزادی حاصل نہیں کرسکتی۔
بات کا پس منظر
سنہ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی اسمبلی کے بارے میں جمعیت علما اسلام کے سربراہ فضل الرحمٰن کا یہ کہنا تھا کہ یہ اسمبلی دھاندلی کی پیداوار ہے اور ناجائز ہے۔ اس لیئے اس اسمبلی کا حصہ نہیں بننا چاہیئے بلکہ بائیکاٹ کر دینا چاہیئے۔ تاہم پھر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے ان کی رائے کو رد کرتے ہوئے اسمبلی کو قبول کیا اور اس کا حصہ بنے اور اسے جمہوریت کی خاطر دی گئی قربانی سے بھی تعبیر کیا۔