امریکی انخلاء سے افغانستان میں سیاسی ، معاشی اور معاشرتی پیشرفت مکمل طور پر واپس ہوسکتی ہیں، جس کے لئے امریکہ نے دو دہائیوں تک 2،000 سے زیادہ امریکی جانیں ضائع کیں اور سینکڑوں اربوں ڈالر جنگ میں جھونک دیئے۔ جبکہ امریکی انٹلیجنس کمیونٹی اور کانگریس کے ذریعہ جاری کردہ ایک مطالعے کے مطابق القاعدہ اور داعش بہت جلد افغانستان میں اپنا اڈہ بحال کرسکتے ہیں، جہاں سے انہوں نے 11 ستمبر 2001 کو حملے شروع کیے تھے‘۔
صرف ڈیڑھ مہینے بعد واشنگٹن پوسٹ کے سارے خدشات درست ثابت ہورہے ہیں اور طالبان چنگیز خانی لشکر کی طرح دندناتے ہوئے افغان اضلاع پر حملے کرتے ہوئے قبضے کررہے ہیں، جبکہ افغان عوام جو نصف صدی سے جنگوں سے تنگ ہیں، کچھ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اور اکثریت عوام طالبان کو خوش آمدید کر رہی ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ افغان ایک ہزار سال سے خانہ جنگی کا شکار ہیں تو بے جا نہ ہوگا، کیونکہ چنگیز خان کے بعد تیمور لنگ، اس کے بعد مغل لڑتے رہے، پھر احمد شاہ ابدالی کے دور میں کچھ سکون کے لمحے میسر آئے مگر وہ خود ہندوستان پر حملہ آور ہوئے اور وہاں سینگ پھنسا بیٹھے، جبکہ تیمور شاہ اور شاہ زمان اور شاہ محمود سے لیکر شاہ شجاع اور دوست محمد خان سے لیکر عبدالرحمن خان تک خانہ جنگی ہی رہی، یا برطانیہ کی مسلط کردہ جنگیں، کچھ سکون کے سانسیں امان اللہ خان اور ظاہر شاہ کے دور میں لیں، پھر رہی سہی کسر روس کی افغانستان میں مداخلت و پسپائی اور اب امریکی مداخلت اور پسپائی نے پوری کردی، مگر پچھلے ایک ہزار سال سے کسی نے سبق نہیں سیکھا! ہر کوئی افغانستان میں زور آزمائی کرتا رہا۔
افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہی ہے جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے پاس گھڑی ہے اور ہمارے پاس وقت ہے، طالبان کے پچھلے ایک ہفتے میں پچاس اضلاع سمیت تاجکستان، افغان بارڈر اور ضلع کرم سے متصل پاک افغان بارڈر پر قبضے سے اس بات میں اب وزن بھی پیدا ہوگیا ہے۔ طالبان مختلف افغان ولسوالی (اضلاع) روندتے ہوئے پچھلے چوبیس گھنٹوں میں چوبیس اضلاع پر قبضہ کرچکے ہیں، جوزجان کے قچہ ولسوالی میں بھی افغان فورسز نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے، یوں جنرل رشید دوستم کا آبائی شہر بغیر گولی چلائے طالبان کے قبضے میں چلا گیا، اب یہ کوئی اتفاق نہیں۔
رشید دوستم وار لارڈ افغانستان کا ایک منجھے ہوئے کھلاڑی ہے مگر قطر اور طالبان کے ساتھ ایک مبینہ ڈیل کی وجہ سے تاجک اور اُزبک علاقوں میں جہاں پہلے طالبان کا جانا ممکن نہیں تھا اب طالبان کو ڈھیل دے دی گئی ہے، اور بادغیث، کندوز اور تاجکستان کے سرحدی چوکی تک طالبان نہایت آسانی سے قبضہ کرتے جارہے ہیں اور لوگ جوق درجوق طالبان کے صفوں میں شامل ہورہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق بعض قبائلی سرداروں اور صوبوں کے گورنر بھی طالبان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور خرید و فروخت کے ’معاملات‘ قطر میں طے پائے ہیں۔
طالبان ذرائع کے مطابق مجموعی طور پر افغاستان کے 384 اضلاع میں سے 154 طالبان کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں جبکہ ایک سو اضلاع کا محاصرہ کیا گیا ہے جو کسی بھی وقت طالبان کے ہاتھوں میں چکے جا سکتے ہیں۔
اسی طرح صوبوں کی بات کریں تو کندوز، تخار، بلخ، فریاب، بادغیث، غور، فرح، ہلمند، اُرزگان، زابل، غزنی، وردک، لوگر، لغمان، بغلان اور سری پل کے صوبائی دارالحکومت طالبان کے محاصرے میں ہیں جبکہ مزار شریف کے دروازے پر بھی دستک دے چکے ہیں وہاں بھی طالبان افغان فورسز پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی ایک امریکی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکہ کو پاکستان میں اڈے دینے سے صاف انکار کر دیا ہے اور واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھتے ہوئے اپنے نظریئے کا بھرپور دفاع بھی کیا کہ ’ پاکستان نے ماضی میں کسی فریق ( طالبان) کا ساتھ دے کر غلطی کی تھی، مگر اب ہم سیکھتے ہوئے، افغانستان میں ہر اس حکومت کا ساتھ دیں گے، جنہیں عوامی حمایت حاصل ہوگی، مگر پاکستان افغانستان کو بندوق کے زور پر فتح کرنےکو تسلیم نہیں کرے گا، جو عشروں کے اندرونی خانہ جنگی کا سبب بنے گی‘
عمران خان نے سوال اُٹھاتے ہوئے لکھا ہے کہ
’اگر امریکہ تاریخ کی سب سے طاقتور فوج کے ساتھ، 20 سالوں کے بعد بھی افغانستان کے اندر سے جنگ نہیں جیت سکتا تھا، تو امریکہ ہمارے ملک کے اڈوں سے یہ کیسے کرے گا؟‘
عمران خان نے امریکہ کو صرف 20 بیس ڈالر امداد کے مقابلے میں پاکستان کی معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان بھی یاد دلایا ہے۔
افغان مفاہمتی عمل میں طالبان سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور ترکی سمیت دوحہ مذاکرات میں تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کریں۔ جبکہ صدر اشرف غنی کو بھی ضد کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
اب جبکہ طالبان کا تقریباً آدھے افغانستان پر کنٹرول ہے، یہ علاقے طالبان نے لڑتے ہوئے اور اضلاع کو روندتے ہوئے قبضہ کئے ہیں، مگر طالبان ترجمان سہیل شاہین امریکہ کو دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے رہے ہیں، طالبان نے پاکستان اور ترکی کو خمیازہ بھگتنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان ممالک کابل ہوائی اڈے یا دوسری کوئی ڈیل سے دور رہیں اور ہمارے ( طالبان) ساتھ مل کر افغانستان میں اسلامی حکومت کی قیام میں مدد کریں۔
طالبان کے مطابق وہ اب کافی جدید ہوچکے ہیں اور لڑکیوں کے سکولوں سمیت خواتین پر سخت پابندیوں کا ارادہ نہیں رکھتے مگر یہ ایک ڈھونگ ہے، طالبان جس سکول آف تھاٹس سے تعلق رکھتے ہیں وہ بنیادی انسانی حقوق کے بالکل مخالف ہیں اور یہ بات افغانستان سمیت پاکستان میں طالبان کے زیر کنٹرول سوات، وزیرستان اور عراق و شام میں بھی واضح طور پر نظر آیا ہے۔
طالبان نے اعلان تو کردیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی مگر بحیثیت مجموعی طالبان کے داعش اور القاعدہ سے روابط موجود ہیں جو امریکی حکام اور افغان تجزیہ کاروں کے علم میں ہے، اور یہ کہ داعش و القاعدہ کسی بھی سرحد کو تسلیم کرنے کے روادار نہیں۔
بھارت کے ساتھ تعلقات میں طالبان، شمالی اتحاد، حامد کرزئی اور اشرف غنی سب ایک صفحے پر ہیں اور پاکستان کا پہلے بھی طالبان پر اتنا اثر و رسوخ نہیں تھا کہ ملا عمر سے ڈیورنڈ لائن منوا سکے، اب تو طالبان کے پاکستان سے زیادہ دوسرے ممالک سے روابط اور انحصار ہے جس میں چین اور روس کے ساتھ ایران، بھارت اور قطر بھی شامل ہے، جبکہ طالبان رہنما انڈونیشیا کا بھی کامیاب دورہ کرچکے ہیں۔
رحیم اللہ یوسفزئی سمیت افغان امور کے بیشتر ماہرین اس پر متفق ہیں کہ افغانستان تیزی سے خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے، تشدد میں اضافہ ہوا ہے اور صورتحال کافی تشویشناک ہے۔
امریکی انخلاء کے بعد جو خلاء پیدا ہوا ہے وہ طاقتور گروپ یعنی طالبان پورا کررہے ہیں، فی الحال تو بڑی شاہراہوں اور بین الاقوامی سرحدی چوکیوں پر افغان حکومت کا قبضہ ہے مگر یہ حالت تبدیل ہوتی جارہی ہے کیونکہ تاجکستان کے ساتھ بارڈر پر طالبان کا قبضہ ہوچکا ہے، جو حکومت واپس کرنے کے لئے جنگ لڑ رہی ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ بارڈر طالبان کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے، ضلع کرم سے متصل صوبہ پکتیا کے ھریوب (اریوب) زازی ولسوالی اور ڈنڈا پٹھان سمیت ملحقہ علاقوں پر طالبان مکمل قبضہ کرچکے ہیں اور یہ پاکستان کے لئے مزید تشویشناک اسی لئے ہے کہ ضلع کرم تاریخی طور پر فرقہ واریت اور افغان جنگ کے دوران ہمیشہ میدان جنگ بنا رہا ہے۔ مکمل تفصیل میں جائے بغیر 1982 میں افغان مہاجرین اور مقامی قبائل نے صدہ شہر میں اہل تشیع کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے کئی خاندان اُجاڑ دیئے، گھر مسمار کئے اور علاقہ بدر کردیئے گئے جو چالیس سال سے دربدر ہیں اور آج تک واپس نہیں ہوئے، اسی طرح 1987, 1996 میں جب طالبان افغانستان پر قابض تھے اور 2007 سے 2012 تک طویل جنگیں ہوئیں، مگر 2012 سے اب تک ضلع کرم تقریباً پرامن ہے اور اب بارڈر پر طالبان پہنچ چکے ہیں جس سے اسلام آباد میں خطرے کی گھنٹی ضرور بجنی چاہئیے۔
اس ساری صورتحال میں اشرف غنی امریکہ کا دورہ کررہے ہیں اور سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اشرف غنی کو استعفٰی دینے پر راضی کیا جاسکتا ہے تاکہ طالبان کو قومی حکومت میں شامل ہونے پر راضی کیا جاسکے۔
مگر طالبان جاتے ہوئے امریکہ سے مذاکرات اور امریکہ کے کٹھ پتلی اشرف غنی کے ساتھ بیٹھ کر قومی حکومت میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے اور اشرف غنی نے بھی ایک ٹی وی انٹرویو میں ڈاکٹر نجیب اللہ پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈاکٹر نجیب نے استعفی دے کر غلطی کی تھی، میں وہ غلطی نہیں دہراؤنگا‘ مگر حالات اتنی تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں کہ اگر بروقت طالبان کی پیش قدمی نہ روکی گئی اور بین الاقوامی مدد نہ کی گئی تو طالبان سالوں کی بجائے مہینوں میں کابل کا محاصرہ کرسکتے ہیں، اور امریکہ بھی جان چکا ہے اسی لئے کابل ہوائی اڈہ ترکی کے حوالے کرنے کا سوچ رہا ہے تاکہ بھاگنے کا ایک راستہ تو کھلا رہے۔
طالبان بندوق کے زور پر افغانستان کے زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قابض ہوکر مذاکرات نہیں بلکہ اپنی اسلامی حکومت کے قیام کے اعلان کے لئے آخری امریکی فوجی کے انخلاء کا انتظار کررہے ہیں، جو 11 ستمبر تک متوقع تھا مگر امریکی جلدی میں ہیں اور اگست سے پہلے امریکی اور نیٹو فوج مکمل انخلاء کا ارادہ رکھتی ہے۔
طالبان جب 1992 میں کابل پر قابض تھے تو پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تسلیم کیا تھا مگر اس دفعہ پاکستان سمیت کوئی ملک طالبان کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔
طالبان کو اس بات کا بھی ادراک ہے کہ اگر بزورِ بندوق کابل پر قابض ہوئے تو دنیا تسلیم نہیں کرے گی، مگر طالبان سیاسی وزن اور دباؤ بڑھانے کے لئے بڑی تیزی سے پیش قدمی کررہے ہیں۔
دراصل طالبان کوئی منظم فوج نہیں بلکہ سینکڑوں سپلنٹر گروپس ہیں، افغان سیکیوریٹی فورسز نے کچھ علاقے خود چھوڑ کر طالبان کے حوالے کئے ہیں جسے ایک منصوبہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کی توجہ افغانستان کی طرف مبذول کریں جبکہ اشرف غنی حالیہ دورہ امریکہ میں حکام کو طالبان کے خلاف ایک اور آپریشن کے لئے راضی کرسکیں۔ اگر اشرف غنی اس منصوبے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور طالبان کے خلاف ہوائی حملے اور ایک بڑا زمینی آپریشن شروع ہوجاتا ہے تو طالبان جتنی تیزی سے ڈیڑھ سو اضلاع پر قابض ہوئے ہیں، اس سے زیادہ تیزی سے پسپائی پر مجبور ہوسکتے ہیں کیونکہ طالبان کے پاس ہوائی حملوں کو روکنا ناممکن ہے، اور یہی فی الحال طالبان کی پیش قدمی روکنے کا حل اور قومی حکومت کے قیام کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔