نوجوان تاجر کی طرح ہمارے سماجی اور سیاسی رویوں کے تضادات بڑے دلچسپ ہیں ۔ اگر آپ کا محبوب ہر ملاقات میں یہ تسبیح پڑھنا ضروری سمجھتا ہے کہ آپ اس کی پہلی اور آخری محبت ہیں تو دال میں ضرور کچھ کالا ہے ۔ جو باتوں کی MP3 سی ڈی ہوتی ہے وہ اپنا تکیہ کلام دہرائے ہی چلی جاتی ہے کہ میں تو زیادہ نہیں بولتی ۔ جو پڑوسیوں کے ذاتی معاملات کی ٹوہ میں پی ایچ ڈی ہوتی ہے ، وہ یہ راز چٹخارے لیتے بتاتے ہوئے کہتی ہے کہ میں تو دوسروں کے معاملات میں دلچسپی نہیں رکھتی ۔ جو اپنے کردار کی بلندی کے دیپک راگ چھیڑنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے.
ان کے کردار میں ضرور جھول ہوتی ہے۔ جو ہمہ وقت اپنے ضمیر کی آواز سننے کا ورد کرتے ہیں،ان کی مراد اصل میں ضمیر ہاکر ہوتا ہے جو لاری اڈے پر’ لاہور لاہور‘ کی آوازیں لگاتا ہے۔ جو موقع بے موقع خم ٹھونک کر دعویٰ کرے کہ اس نے کبھی اپنے بچوں کو حرام نہیں کھلایا تو وہ دراصل اپنے اندر کی چوری کو چھپا رہا ہوتا ہے۔ جو بندہ آدھے گھنٹے کی ملاقات میں پانچ مرتبہ اپنی پارسائی کا ڈھنڈورا پیٹے، وہ عملی زندگی میں ہر طرح کی دو نمبری روا رکھتا ہے ۔ جو خواتین و حضرات بات بات پر اپنی سچائی کی قسمیں کھاتے ہوئے زور دیتے ہیں کہ انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، وہ اول درجے کے جھوٹے ہوتے ہیں ۔ اگر ہمارے ایسا کوئی قلم کار سینہ تان کر تکرار کرے کہ اس نے قلم کبھی نہیں بیچا تو اس سے مراد یہ ہے کہ یا تو وہ اپنے قلم کی حرمت کا سود ا کر چکا ہے یا پھر اس کا قلم خریدنے کے لیے کسی نے پھوٹی کوڑی تک کی آفر نہیں کی۔ جو ذرا سی بات پر تنک کر گرجے’ ایسی ویسی نہیں ہوں میں ‘ وہ ایسی ویسی ہی ہوتی ہے ۔
اگر اربابِ اقتدار میں سے کوئی پرجوش عزم کا اظہار کرے کہ ہم مہنگائی ختم کر کے دم لیں گے تو پھر بلا تاخیر مایوس ہو جائیے کہ ایسا ویسا کچھ نہیں ہو گا۔ جب کوئی وزیر با تد بیر کسی نئے ٹیکس یا تیل کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کرتے ہوئے جانکاری دے کہ عام آدمی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا تو عام آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے تن پررہ جانے والی بنیان اور نیکر کو مضبوطی سے پکڑ لے ۔
جو دنیا کے سامنے ہر روز دنیا کی آسائشوں کو طلاق دیتے ہیں، ان کے دل میں دنیا کی محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے ۔ جو نرگسی طبیعت رات دن دوسروں کی بے ایمانی پر کڑھتا ہے وہ خود بے ایمانو ں کا چیئرمین ہوتا ہے ۔ جو اپنے تئیں خود کو علوم پر اتھارٹی سمجھتے ہیں، وہ حقیقت میں خالی کنستر ہوتے ہیں ۔ دانش کے نام پر دُھول اڑانے والا سب کچھ ہو سکتا ہے مگر دانشور نہیں ۔ جو ہر روز گلے اور سپیکر پھاڑ کر اتحاد بین المسلمین کے درس دیتے ہیں، انہی کے خطبات سے فرقہ وارانہ فسادات جنم لیتے ہیں۔ قبر و آخرت سے لوگوں کو ڈرانے والے خود ان سے کبھی نہیں ڈرتے ۔ جوخود کو قوم کے لیے چھتناور شجر گردانتے ہیں وہ اصل میں سوکھی، خاردار اور بے ثمر جھاڑیاں ہوتے ہیں۔ جو دوسروں کوجہاد کےفضائل پر لیکچر دیتے نہیں تھکتے، وہ خود جہاد کے موسم میں ہسپتال میں داخل ہو جاتے ہیں ۔خود کو حب الوطنی کے قطب مینار سمجھنے والے ہی وطن کی جڑیں کھوکھلی کرتے ہیں ۔ جنہوں نے قومی غیرت اور خود مختاری کو اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے ، وہی ریاست کی غیرت اور عملداری چیلنج کرنے والوں کے سکہ بند حمایتی ہیں ۔ جو ہر دم ملکی مفادات کا سود ا کرنے والوں پر لعنتیں بھیجتے ہیں ، وہ خود ڈالرز اوردرھم ودینار کے ڈھیروں کے آگے ڈھیر ہو جاتے ہیں ۔ جو کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے کی بڑھکیں مارتے ہیں، انہوں نے خود اپنی جڑوں کی سیرابی کرپشن سے کی ہوتی ہے۔ جو صبح ، دوپہر، شام کرپٹ لوگوں کو لٹکانے کے عزم کرتے ہیں، میرٹ پر وہ خود اس سزا کے اصل حقدار ہوتے ہیں۔
فارسی کی ایک کہاوت ہے کہ عطر وہ ہے جو خود چاروں طرف خوشبو پھیلائے، نہ کہ عطا ر بتائے کہ یہ عطر ہے ۔ حقیقت میں پارسا وہ ہے جسے لوگ پارسا کہیں ۔ سچا وہ ہے جسے دوسرے سچا سمجھیں ۔ باکردار وہ ہے جس کے کردار کی گواہی خلق خدا دے ۔ سچی محبت خود ہی صنف مخالف کے دل میں گھر کر جاتی ہے ۔ جس محبت کا دن میں کئی مرتبہ یقین دلانا پڑے وہ مشکوک محبت ہوتی ہے ۔ کسی کے باضمیر ہونے کا سرٹیفکیٹ وہ جاری کرتے ہیں ، جن سے روزمرہ کے امور میں اس کا واسطہ پڑتا ہے ۔ عالم وہ ہے جسے لوگ عالم سمجھیں اور اس سے مستفید ہوں۔ دانشور وہ ہوتا ہے جس کی دانش سے معاشرہ منور ہو کر خود اس کی دانش کی شہادت دے ۔ اگر کوئی قوم کے لیے سایہ دار شجر ہے تو اسے خود یہ گردان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کی چھائوں میں سکون پانے والوں کی محبت ہی اس کی سند ہوتی ہے ۔ کسی کے قلم کی حرمت کی معتبر گواہی وہ ہے، جو قارئین دیتے ہیں ۔ اپنے سروں پر تنگ نظری کے آہنی خول چڑھا کر اپنے تئیں خود کو لیڈر، عالم یا دانشور قرار دیا جا سکتا ہے مگر بے رحم تاریخ تو انہیں شاہ دولے کے چوہے اور کنوئیں میں ٹرانے والے مینڈک ہی قرار دیتی آئی ہے ۔
کسی بھی ملک کے شہری اپنی حکومت کو عوام دوست یا عوام دشمن ہونے کا سرٹیفکیٹ بن مانگے ہی جاری کر دیتے ہیں۔ اس بارے وزرائے کرام یا اپوزیشن کی طرف سے ٹین ڈبے کھڑ کھانے کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ کوئی لاکھ دعوے کرے کہ اس نے صاف اور شفاف انتخابات کے نتیجے میں اپنی حکومت بنائی ہے، اگر ووٹرز اور آزاد دنیا کا میڈیا اپنی مہر تصدیق ثبت نہ کریں تو ایسے دعوے ٹکے کے نہیں ہوتے ۔ کسی حکمران کی کارکردگی کی حقیقت وہ نہیں ہوتی ،جو وہ خوشامدیوں کے نرغے میں سنتا ہے۔ کسی ڈیل یا ڈھیل کی اصلیت بھی وہ نہیں ہوتی جو فریقین بیان کرتے ہیں۔ کسی کی طرف سے ڈی چوک سے پیچھے ہٹنے کی وضاحت کی بھی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ ایسے واقعات کی اصل حقیقت تو آزاد اور غیرجانبدار میڈ یا بتا سکتا ہے یا پھر وہ بیان کر سکتے ہیں، جن کے بارے میں حیدر علی آتشؔ نے کہا ہے
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا ؟