پاکستان میں کرونا سے متاثرین کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے تو ایسے میں ایک سوال جو ہر ذی شعور پاکستانی کے دماغ میں ہو گا، وہ سوال ہو گا۔ پاکستان اس مرض کا مقابلہ کرنے کے لئے کتنا تیار ہے؟ تو اس ضمن میں اب تک کے اعداد و شمار کو بنیاد بنا کر چند نکات کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر مرض کا پھیلاؤ اور اموات کی شرح کو دیکھا جائے تو سب سے زیادہ مریض بالترتیب اٹلی، چین اور ایران میں ہیں، اور اموات کی تعداد بھی انہی ممالک میں زیادہ ہے، لیکن چین کی شرح اموات نسبتاً کم اور اٹلی ایران کی بہت زیادہ ہے۔ اسی طرح فلپائن اورعراق بھی کم متاثرین ہونے کے باوجود شرح اموات کے لحاظ سے کافی اوپر ہیں، جب کہ دوسری طرف جنوبی کوریا، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ زیادہ تعداد میں متاثر ہونے کے باوجود اس مرض سے ہونے والی اموات کو کم سطح پر رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
اٹلی کے حوالے سے جو پہلی بات ذہن میں آتی ہے، وہ اٹلی کی آبادی میں بوڑھوں کی زیادہ تعداد ہے۔ اٹلی کی نصف آبادی 47 سال سے زائد عمر کی ہے، جو اسے کرونا کے حوالے سے ایک آسان ٹارگٹ بناتی ہے۔ لیکن اسی پیمانے پر اگر جاپان کو دیکھا جائے، جہاں پر نصف آبادی 47 سے زائد عمر کی ہے، وہاں پر کرونا کا پھیلاؤ بھی کم رہا ہے اور متاثرین میں شرح اموات بھی عالمی شرح سے کم ہی ہے۔ اس ضمن میں افریقہ کے بیشتر ممالک میں نوجوان آبادی بہت زیادہ ہے اور ابھی تک کے اعداد و شمار میں وہاں مرض کا پھیلاؤ بہت کم ہے۔
پاکستان میں بھی نصف آبادی 23٫8 سال سے کم عمر ہے تو کرونا کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے ایک اچھا پہلو ہے، لیکن ایک چیز یاد رکھنی چاہیے کہ کرونا انفیکشن ہونے کے باوجود نوجوان بھلے آسانی سے صحت یاب ہو جاِئیں مگر اس دوران بزرگوں اور ادھیڑ عمر لوگوں سے ان کا میل ملاپ ان بزرگوں اور ادھیڑ عمر لوگوں کے لئے کافی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ کسی بھی ملک کی خوشحالی اس ملک کے لئے ناگہانی آفات پر قابو پانے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے جب کہ مالی طور پر غریب ممالک اس حوالے سے جارحانہ اقدامات کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
لیگٹم انسٹی ٹیوٹ (Legatum Institute) کے خوشحالی انڈیکس سے اگر دیکھا جائے تو جرمنی، نیدرلینڈ، بلجیئم، جاپان اور سوئٹزرلینڈ جیسے ممالک جنہوں نے زیادہ تعداد میں کرونا کیسز ہونے کے باوجود شرح اموات کو کنٹرول رکھا ہے تو اس میں ایک بڑا فیکٹر ان ممالک کا خوشحال ہونا بھی ہے، یہ تمام ممالک 25 خوشحال ممالک کی فہرست میں آتے ہیں جب کہ شرح اموات زیادہ ہونے والے ممالک میں ماسوائے اٹلی باقی سب کافی نیچے ہیں۔
پاکستان اس لحاظ سے 156 ممالک کی درجہ بندی میں 140 نمبر پر ہے اور کرونا کے خلاف جنگ میں یہ کمزوری ایک لمحہ فکریہ ہو سکتی ہے۔
Country
Total Cases
Total Deaths
Death %
Median Age
Prosperity Ranking
Health Ranking
Belgium
3,401
75
2.21%
41.4
22
24
China
81,054
3,261
4.02%
37.4
57
21
France
14,459
562
3.89%
41.4
23
16
Germany
23,937
93
0.39%
47.1
8
12
Iran
21,638
1685
7.79%
30.3
119
88
Italy
53,578
4,825
9.01%
45.5
30
17
Netherlands
4,204
179
4.26%
42.6
6
9
Pakistan
730
3
0.41%
23.8
140
127
S. Korea
8,897
98
1.10%
41.8
29
4
Spain
28,572
1753
6.14%
42.7
25
13
Switzerland
7,225
80
1.11%
42.4
3
3
Total:
318,254
13,671
4.30%
لیگٹم انسٹی ٹیوٹ (Legatum Institute) کی صحت کی سہولیات کی درجہ بندی میں پاکستان 127 ویں نمبر پر موجود ہے۔ جنوبی کوریا، جرمنی، جاپان اور سوئٹزرلینڈ نے اپنے بہترین ںظام صحت سے اس افتاد پر قابو پایا ہے جبکہ اٹلی اچھی سہولیات ہونے کے باوجود اور ایران اوسط درجے کی صحت سہولیات کے ساتھ اس افتاد کا مقابلہ کرنے میں بے بس نظر آتے ہیں تو پاکستان کا کمزور نظام صحت اس جنگ میں ہمارے لئے بہت سی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ ہمارے پاس نوجوان طبقے کی اکثریت کا مثبت پہلو ہے اور ںظام صحت و معیشت کی کمزوری ایک بڑا چیلنج۔
وفاقی حکومت کی طرف سے تفتان کے قرنطینہ کیمپ میں کی جانے والی غلطیاں اور حکومت [سندھ کی صوبائی حکومت کو چھوڑ کر] کی طرف سے قبل از وقت دفاعی پوزیشن کرنا بھی اس جنگ کو مشکل تر بنا رہا ہے۔ وزیراعظم کو فورا لاک ڈاون کی طرف جانا چاہیے تھا تاکہ پاکستان کے مفلوج نظام صحت پر کم سے کم بوجھ ڈالا جائے لیکن وزیراعظم پاکستان اس پر قائل نظر نہیں آئے، اور انہوں نے اس کے لئے غریب طبقے اور دیہاڑی دار مزدور کی مشکلات کو بنیاد بنایا ہے لیکن اگر ایک معروضی جائزہ لیا جائے تو خدانخواستہ وبا کے پھیلاؤ میں یہی طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔ اور ان میں سے کسی ایک کی جان جانے کا مطلب ایک پورے خاندان کا ہمیشہ کے لئے بے آسرا ہو نا ہو گا۔ اور اگر وزیراعظم صاحب کو اس طبقے کی لاک ڈاون میں مشکلات کا احساس ہے تو اس کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں میری پہلی تجویز تو یہی ہو گی کہ حج 2020 کے سلسلے میں کامیاب درخواست کندگان کی جمع کردہ رقم کو استعمال کیا جائے۔ کہ ابھی تک کے حالات سے حج کا انعقاد مشکل ہو گا اور علما کی راہنمائی سے پاکستانی حکومت انہی درخواست کندگان کو اگلے سال کی حج کے لئے کامیاب درخواست کندگان قرار دے۔ اس ضمن میں تقریباً ایک لاکھ اسی ہزار حاجیوں سے پانچ لاکھ فی کس کے حساب سے جمع کی گئی رقم 90 ارب بنتی ہے اور پاکستان کے کل سوا تین کروڑ خاندانوں میں سے اگر ایک کروڑ خاندانوں کو بھی امداد کا مستحق سمجھا جائے۔ تو یہ رقم فی خاندان 9000 بنتی ہے جو ایک ماہ کے راشن کے طور پر دی جا سکتی ہے۔ اور یہ اتنا مشکل ٹاسک بھی نہیں کیوں کہ بے ںظیر انکم سپورٹ پروگرام اور احساس پروگرام کے سروے سے ہم مشکلات میں گھرے گھرانوں کا آسانی سے پتہ چلا سکتے ہیں۔
ڈیم فنڈ میں موجود رقم کے بارے میں بھی اعلی عدلیہ کہہ چکی ہے کہ اسے فلاح کے کاموں میں لگایا جائے گا تو اس کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، علاوہ ازیں ایک نیا فنڈ قائم کر کے اس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور مخیر حضرات سے امداد کا کہا جا سکتا ہے۔ بھارت میں ایسے ہی قائم ایک فنڈ میں انیل اگروال نامی تاجر 100 کروڑ بھارتی روپے جمع کروانے کا اعلان کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ کابینہ اور دیگر محکموں سے بھی کٹوتی کر کے فنڈ اکٹھا کیا جا سکتا ہے جو اس مشکل گھڑی میں غریب اور دیہاڑی دار طبقے کو دیا جا سکتا ہے۔
صحت کے نظام کو مکمل طور پر ناکام ہونے سے بچانے کے لیے لاک ڈاؤن ضروری تھا۔ دیر آید درست آید۔