ذرائع کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کو خط لکھ کر بینچ کی تشکیل پر سوالات اٹھا دیے۔ انہوں نے کہا کہ صدارتی ریفرنس پر پوری قوم کی نظریں ہیں، اتنے اہم کیس کے لیے بینچ کی تشکیل سے پہلے کسی سینئر جج سے مشاورت نہیں کی گئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لارجر بینچ میں سینئر ججوں کو شامل نہیں کیا گیا اور تشکیل سے پہلے قواعد و ضوابط پر عمل نہیں کیا گیا، بینچ میں سینئیرٹی پرچوتھے ، آٹھویں اور 13 ویں نمبر پر شامل ججوں کو شامل کیا گیا، حالانکہ جہاں اہم قانونی اور آئینی سوالات ہوں وہاں سینئر ججوں کا بینچ میں شامل ہونا چاہیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ بار کی پٹیشن اور صدارتی ریفرنس اکٹھے نہیں سنے جا سکتے۔
چیف جسٹس کے نام خط میں انہوں نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ بار کی ہفتے کے روز درخواست کی سماعت میں صدارتی ریفرنس سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا گیا۔
https://twitter.com/QayyumReports/status/1506536929256304645
خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ حیران ہوں کہ جو ریفرنس دائر ہی نہیں ہوا تھا اسے مقرر کرنے کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کو لکھے گئے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ یہ بات قابلِ فہم ہے کہ بار کی درخواست آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر ہوئی، اس پر عدالت حکم دے سکتی ہے۔
خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا ہے کہ درخواست کے ساتھ ریفرنس کو یکجا کر کے کیسے سنا جا سکتا ہے؟
ان کا چیف جسٹس پاکستان کو لکھے گئے خط میں یہ بھی کہنا ہے کہ درخواست 184/3 کے اختیارِ سماعت کے تحت سنی جا رہی ہے جبکہ ریفرنس مشاورتی اختیارِ سماعت ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط کی نقول اٹارنی جنرل، صدر سپریم کورٹ بار، سپریم کورٹ ججز اور تمام صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی بھیجی ہیں۔