یہ بات انہوں نے صحافیوں سے ملاقات کے موقع پر کی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ فضل الرحمان سیاست کا بارہواں کھلاڑی ہے۔ فضل الرحمان کے اب ٹیم سے باہر ہونے کا وقت ہو گیا ہے۔ فوج کو غلط تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مضبوط فوج ملک کی ضرورت ہے۔ فوج نہ ہوتی تو ملک کے تین ٹکڑے ہو جاتے۔ سیاست کے لیے فوج کو بدنام نہ کیا جائے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ن لیگ اور پی پی کی سیاست چوری اور چوری چھپانا ہے۔ کسی کو غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ گھر بیٹھ جائوں گا۔ کسی صورت استعفی نہیں دوں گا۔ کیا چوروں کے دبائو پر استعفیٰ دے دوں۔
عمران خان نے میڈیا میں زیر گردش خبروں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ چودھری نثار سے ملاقات ہوئی ہے، ان سے میرا 40 سال پرانا تعلق ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا چوروں کیساتھ لڑائی سے پہلے ہاتھ کھڑے کردوں۔ عدم اعتماد والا میچ ہم جیتیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ زرداری الٹا بھی لٹک جائے تو پاکستان میں کسی نے اعتبار نہیں کرنا کہ ہمارا کوئی ایم این اے نظریے کی وجہ سے اس چور کے ساتھ گیا۔ یقین نہیں آتا تو سروے کروا لیں۔ اتحادیوں نے اسی ملک میں سیاست کرنی ہے۔ عوامی رائے کے خلاف جو بھی جائے گا، وہ اپنا سیاسی نقصان کرے گا۔ 70 فیصد عوامی رائے اپوزیشن کے خلاف ہو چکی ہے۔27 مارچ کے بعد یہ عوامی رائے 90 فیصد ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا نواز شریف نے لفافہ صحافت کا آغاز کیا کیونکہ اس کو بات تو کرنی آتی نہیں۔ وہ لفافے دے کر صحافیوں سے کہتا تھا کہ پریس کانفرنس میں مجھ سے مشکل سوال نہ پوچھنا۔ اپوزیشن کو معلوم ہی نہیں کہ عدم اعتماد کے دن ان کے کتنے لوگ رہ جائیں گے۔ آخری کارڈ عدم اعتماد کے دن کی صبح بھی آ سکتا ہے۔ استعفے کی باتیں کرنے والے مجھے جانتے ہی نہیں، آخری گیند تک لڑوں گا۔
اس دوران صحافیوں نے پوچھا کہ کامران خان نے وی لاگ میں 4 مطالبے کئے۔ کیا آپ جنرل فیض حمید اور عثمان بزدار پر فیصلے کریں گے ؟ جس پر وزیراعظم نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ کامران خان کو کون بتاتا ہے کہ میں نے کیا کرنا ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں آرام سے گھر بیٹھ جاوں گا تو اس کی غلط فہمی ہے۔ عوام تیار بیٹھی ہے۔ ابھی تو جنگ کا آغاز ہی نہیں ہوا۔