وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں علی وزیر کا کہنا تھا کہ وہ اپنی سوچ کے مطابق ریاستی اداروں پر تنقید کرتے ہیں اور تنقید ادارے پر نہیں بلکہ اداروں کے کچھ اقدامات پر ہوتی ہے۔
ریاستی اداروں پر تنقید کے الزام میں دو سال تک جیل میں رہنے کے بعد گزشتہ ماہ عدالت نے علی وزیر کو ضمانت پر رہا کیا تھا۔
علی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ وہ اُن جرنیلوں پر تنقید کرتے ہیں جنہوں نے اس ریاست اور ادارے کو اپنے کاروبار کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔
خیال رہے کہ پی ٹی ایم رہنما پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پالیسیوں اور اس کی دیگر ریاستی امور میں مبینہ مداخلت پر کھل کر تنقید کرتے رہے ہیں۔
پاکستان کی فوج پی ٹی ایم رہنماؤں کے اس نوعیت کے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔ فوجی ترجمان اپنے بیانات میں پی ٹی ایم کو ملک دُشمن قوتوں کا آلہ کار قرار دیتے رہے ہیں۔
فوج کا یہ مؤقف رہا ہے کہ پی ٹی ایم رہنما فوج مخالف بیانیہ اپنا کر فوج اور عوام کے درمیان دُوریاں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
اپنے مؤقف اور بیانیے پر قائم ہوں'
علی وزیر نے کہا کہ ان کی ضمانت پر رہائی کسی رعایت کا نتیجہ نہیں بلکہ جب کوئی راستہ باقی نہ بچا تو انہیں ضمانت ملی۔
اس سوال پر کہ ایک ریاستی ادارے نے آپ پر الزام لگایا تو دوسرے نے رہائی دی لیکن تب بھی پی ٹی ایم کی جانب سے ریاستی اداروں پر اعتماد کا اظہار کیوں نہیں کیا جاتا؟ علی وزیر نے کہا کہ اس معاملے پر بڑی عدالتوں نے کچھ قدم اُٹھائے، تاہم ماتحت عدالتیں کس کے زیرِ اثر ہیں یہ سب کو معلوم ہے۔
اُنہوں نے کہا لازمی بات ہے کہ کچھ لوگ ایمان دار ہیں اور اپنے کام میں سنجیدہ ہیں اور اپنے اداروں کی بدنامی کا باعث نہیں بنتے، ہم ان کا احترام کرتے ہیں۔
فوج پر تنقید کرنے والے دیگر سیاسی رہنماؤں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے علی وزیر کہتے ہیں کہ وہ کسی کی جدوجہد پر سوال نہیں اٹھائیں گے لیکن رہائی کے بعد بہت سے سیاسی رہنماؤں نے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ وہ آئندہ اداروں پر تنقید نہیں کریں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے جو باتیں کیں، جو مؤقف اور بیانیہ شروع سے اپنایا، آج تک اس پر قائم ہیں۔
علی وزیر نے کہا کہ دیگر لوگوں اور ان کی تنقید میں فرق یہ ہے کہ وہ اپنے مفادات کے واسطے اور حصہ مانگنے کے لیے تنقید کرتے ہیں جبکہ ان کی تنقید حقائق و نظریات کی بنیاد پر ہے جس پر لوگ اسے قبول کرتے ہیں اور اس کے اثرات ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ جن مسائل پر گفتگو کرتے ہیں اور جو مطالبات رکھتے ہیں وہ قبائلی علاقوں کے لوگوں کی زندگیوں کا مسئلہ ہیں۔
علی وزیر کو دسمبر 2020 میں پشاور سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرنے کے جرم میں مقدمہ درج کرنے کے ساتھ خیبرپختونخوا کے مختلف تھانوں میں بھی مقدمات درج تھے۔
علی وزیر نے کہا کہ وہ حکومت کے ساتھ فیصلہ کن بات چیت میں جائیں گے کیونکہ سابق قبائلی اضلاع کے حوالے سے جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے۔
'پروڈکشن آڈر جاری نہ کرنے پر حکومت سے گلہ نہیں'
اس سوال پر کہ موجودہ سپیکر اور سابق سپیکر ان کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کر سکے تھے تو اس پر کیا کہیں گے؟ علی وزیر کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ اس شرط پر نہیں دیا تھا کہ اُن کے پروڈکشن آرڈر جاری ہوں گے بلکہ وہ ایک سوچ کے تحت جدوجہد کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ ایسی بات نہیں کریں گے جس سے ان کے نظریے پر حرف آئے کیونکہ جب آپ مثال بنیں گے تو ہی لوگ آپ سے متفق ہوں گے اور ساتھ چلیں گے۔
خیال رہے کہ علی وزیر کو پی ٹی آئی کی حکومت کے دور میں گرفتار کیا گیا تھا اور اس دوران عمران خان کے خلاف آنے والی عدم اعتماد کی تحریک کی انہوں نے حمایت کی تھی۔
گزشتہ ماہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران حکمران اتحاد کے اراکینِ اسمبلی اور سینیٹرز نے سپیکر پر علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے پر شدید تنقید کی تھی۔
' پی ٹی ایم میرا نظریہ ہے، چھوڑ نہیں سکتا'
پی ٹی ایم میں تقسیم کی قیاس آرائیوں اور مستقبل کی سیاست کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اور منظور پشتین اکٹھے ہیں اور پی ٹی ایم ان کا نظریہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ان کی نہ کوئی سوچ ہے اور نہ ہی کسی کو کوئی یقین دہانی کرا رکھی ہے۔
پی ٹی ایم پر پابندی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جماعت کو کالعدم اس وقت ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ اگر انہوں نے بندوق اٹھائی ہو یا کوئی شدت پسند کارروائی کی ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی جدوجہد پرامن اور عوامی حقوق کے لیے ہے لہٰذا اس پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔
علی وزیر پی ٹی ایم کے رہنما ہیں تاہم 2018 کے انتخابات میں وہ خیبر پخنونخوا میں کچھ عرصہ قبل ضم ہونے والے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان سے آزاد حیثیت سے پہلی بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں علی وزیر کے والد، بھائیوں، چچا، کزن سمیت ان کے خاندان کے 18 افراد مختلف واقعات میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
بشکریہ VOA اردو