مجرم کو ’نقصِ صحت‘ کے خدشے کے تحت پابندِ سلاسل رکھنے کے طلب گاروں نے فیصلہ آنے سے قبل گاہے گاہے اپنے خدشات کو درخواستوں میں ڈھالا، عذر پیش کیا کہ چونکہ مجرم کے رویے پر قابو نہیں پایا جا سک رہا، مت آزاد کریں ورنہ یہ مزید ’بے قابو‘ ہو جائے گا۔
پر حضور کا اقبال بلند ہو، انہوں نے درخواست رد کر کے آزادی کے پروانے میں توجیہ پیش کی کہ مجرم کے بڑے مالز میں میل جول کی ممانعت اور چھوٹی مارکیٹوں میں دو ایام کی جبراً بندش تو دراصل اس ’بے قابو‘ کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انصاف کا جھولا اس دلیل پر مزید جھلایا گیا کہ اگر ملزم کورونا کے ’حسن‘ سے بغض رکھنے والے زیب وآرائش کی شدھ بدھ نہیں رکھتے تو ان کی اس بدذوقی کی سزا ’حامیانِ وبا‘ کو بھی نہیں ملنی چاہیے۔
خیر جس فیصلے کے ہم مستحق تھے، وہ ہمیں نصیب بھی ہو گیا۔ جن کو تحفضات ہیں ان کے لئے بہتر ہے کہ ’اجتماعی کرتوتوں‘ کی وجہ سے تقدیر کا لکھا یہ فیصلہ بھی ہنسی خوشی قبول کر لیں۔ اگر خود کی دل جوئی کرنے کے لئے سامان مقصود ہے، تو فیصلہ کھنگالیے، یہ خوشنما نظارہ آنکھوں کے سامنے آئے گا، مجرم وائرس کی کرامات کی بدولت ملک کے تین بھائیوں کے درمیان نہ صرف بھرپور اتفاق ہے، بلکہ مزید ’حصولِ برکت‘ کے لئے ’اب بھوک سے نہیں بلکہ کرونا سے مرنا ہے‘ جیسے عہد و پیمان کا بھی معیاری بندوبست کیا گیا ہے۔
ویسے حیران کن تو نہیں کہ اس ’ریاستی تین جہتی‘ میں چھوٹے بھائی کا ’بھونڈا پن‘ مزید بکھر کر سامنے آیا ہے۔ یہ لاابالی ناگزیر وجوہات کی بنا پر پہلے بھی ماں کا ناپسندیدہ تھا، اب تو مامتا نے اس کے تقویض کردہ واحد ڈھونگ (پالیسی بنانے اور نافذ کرنا) کو بھی صیحح سے نہ رچ سکنے کے باعث، بڑے اور منجھلے بھائیوں کے حوالے کر دیا ہے۔
اس فیصلے سے مسرور ہونے والوں کے تو یقیناً کلیجوں میں ٹھنڈ پڑ گئی ہو گی، جن کی بازاورں میں بھاگ دوڑ کی وجہ یہ خدشہ تھا کہ کہیں حالیہ تبدیلیوں کے بعد جنم لینے والی اس ’نئی دنیا‘ میں انہیں ستر پوشی کے لوازمات پورے کرنے کے لئے بابا آدم اور اماں حوا کے متروک طریقوں سے ہی استفادہ نہ کرنا پڑ جائے۔
ان لوگوں کو ’محفوظ‘ راستہ دکھانے والوں کو تو اب تعلیمی اداروں کے قفل کھولنے کے احکامات بھی صادر کرنے چاہئیں، کہ کہیں بھوکوں کی بھوک مٹتے دیکھ کر، پیاسوں کو زر کے عوض پانی پلانے والے ہی پیاس سے نہ مر جائیں۔ اور تو اور اب تو دین انسانیت کا نقشہ بگاڑنے والے ان حوارین کی روحیں بھی مزید کچھ شاد ہو گئی ہوں گی، جو فیصلے آنے سے قبل اپنے آپ کو صرف اس لئے تنگ دستی کا شکار سمجھتے تھے کہ انہیں نزلہ گرانے کے لئے محدود جگہ میسر تھی، اب تو ان کے سامنے وسیع و عریض میدان کھل گیا ہے۔
آخر میں عرضی لکھنے کی تاویل کی طرف آؤں تو بنیادی مقصد تو اس فیصلے پر جشن منانے والوں کو مبارک باد دینا تھی۔ سو قبول کیجئے!