معروف انگریزی اخبار ڈان کی خبر کے مطابق حکومت کو اس طرح تقریباً 27 ارب ڈالر تک کا سالانہ زرمبادلہ بچانے کی امید ہے۔
یہ تخمینے کام کے دنوں اور ایندھن کی بچت کے حوالے سے تین مختلف منظرناموں پر مبنی ہیں جو کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ڈیڑھ ارب سے 2 ارب 27 کروڑ ڈالر کے زرمبادلہ کی بچت کے لیے تیار کیے ہیں۔
رواں مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ (جولائی تا اپریل) کے دوران پاکستان کی تیل کی مجموعی درآمد 17 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 96 فیصد کی بڑی نمو کو ظاہر کرتی ہے۔
تیل کی مجموعی درآمدات میں 8 ارب 50 کروڑ ڈالر کی پیٹرولیم مصنوعات اور 4 ارب 20 کروڑ ڈالر کے پیٹرولیم خام تیل کی درآمد شامل ہے، جو بالترتیب 121 اور 75 فیصد اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔
یہ اضافہ صرف بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے نہیں ہے کیونکہ پیٹرولیم مصنوعات اور خام تیل کی درآمدی مقدار میں بھی بالترتیب 24 فیصد اور 1.36 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ایک سینئر سرکاری عہدیدار نے کہا کہ متعلقہ حکام یعنی پاور اور پیٹرولیم ڈویژنز کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے تخمینوں کے ساتھ آئیں جس میں بجلی کی بچت بھی شامل ہے تاکہ کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے مختلف شعبوں کے لاگت کے فوائد کے تجزیہ کے ساتھ اس معاملے کو جامع انداز میں اٹھایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ مرکزی بینک کا تخمینہ زیادہ تر ہفتے کے عام کام کے دنوں میں پی او ایل (پیٹرولیم مصنوعات) کی کھپت کا احاطہ کرتا ہے، جس میں ریٹیل کاروبار، سرکاری دفاتر اور تعلیمی ادارے شامل ییں ۔
البتہ اس میں ایل این جی کی درآمدات کو مدنظر نہیں رکھا گیا جو زیادہ تر پاور سیکٹر میں جاتی ہے۔
رواں مالی سال کے ابتدائی 10 مہینوں کے دوران ایل این جی کی درآمدات 3 ارب 70 کروڑ ڈالر رہی، جو کہ 83 فیصد اضافے کو ظاہر کرتی ہے، حالانکہ اس کی درآمدی مقدار کم تھی۔
یہ تخمینے بتاتے ہیں کہ ہفتے میں ایک اور کام کے دن کے لیے اضافی پی او ایل کی کھپت سے قوم پر سفر کے لحاظ سے تقریباً 64 کروڑ 20 لاکھ ڈالر لاگت آئے گی، جس میں مال برداری اور نقل و حمل شامل نہیں ہے۔
اس کے برعکس، ہفتے میں کام کے ایک کم دن کے ساتھ کم کھپت تقریباً 2 ارب 10 کروڑ کی سالانہ بچت فراہم کرتی ہے۔