الیکشن کمیشن نے 20 مئی کو عمران خان کے خلاف بغاوت کرنے والے پنجاب اسمبلی کے 25 ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے انتخاب کے وقت تحریک انصاف کے ان ارکان اسمبلی نے اپنے امیدوار کی بجائے ن لیگ کے امیدوار حمزہ شہباز کی حمایت کی تھی۔
نوٹی فیکیشن کے مطابق پنجاب اسمبلی کی 20 جنرل نشستوں پر منتخب ارکان، خواتین کی مخصوص نشستوں پر 3 اور اقلیتی نشستوں پر 2 ارکان کو ڈی سیٹ کیا گیا ہے۔ ان اراکین اسمبلی میں صغیر احمد، ملک غلام رسول سنگھا، سعید اکبر خان، محمد اجمل، عبدالعلیم خان، نذیر چوہان، محمد امین ذوالقرنین، ملک نعمان لنگڑیال، محمد سلمان نعیم، زوار حسین وڑائچ، نذیر احمد خان، فدا حسین، زہرہ بتول، محمد طاہر، عائشہ نواز، ساجدہ یوسف، ہارون عمران گِل، عظمیٰ کاردار، ملک اسد علی، اعجاز مسیح، محمد سبطین رضا، محسن عطا خان کھوسہ، میاں خالد محمود، مہر محمد اسلم، فیصل حیات بھی شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے 25 منحرف ارکان پنجاب اسمبلی کو ڈی سیٹ کردیا
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے 25 منحرف اراکین کا ووٹ کالعدم قرار دینے کے بعد نمبر گیم تبدیل ہو گیا ہے۔ منحرف اراکین کا ووٹ کالعدم ہونے کے باوجود حکومتی اتحاد کے پاس سادہ اکثریت برقرار ہے اور حکومتی اتحاد کو اپوزیشن پر صرف 3 ووٹوں کی سبقت حاصل ہے۔
پنجاب اسمبلی میں حکومتی اتحاد کے پاس اس وقت 172 اراکین کی حمایت ہے۔ مسلم لیگ نون کے پاس پنجاب اسمبلی ایوان میں 165 اراکین ہیں جب کہ مسلم لیگ نون کے 4 اراکین منحرف ہوچکے ہیں،4 اراکین منحرف ہونے کے بعد تعداد 161 رہ گئی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے7،آزاد اراکین3 اورراہ حق پارٹی کا ایک رکن بھی اتحاد میں شامل ہے۔
ادھر تحریک انصاف اور ق لیگ کے پاس 168 اراکین کی حمایت ہے۔ تحریک انصاف کے پاس ایوان میں 183 اراکین ہیں،منحرف اراکین کےبعد تحریک انصاف کے پاس 158 اراکین پنجاب اسمبلی باقی رہ جاتے ہیں۔ مسلم لیگ ق کے پاس پنجاب اسمبلی کے ایوان میں 10 اراکین ہیں،ایک آزاد رکن چودھری نثاربھی اپوزیشن اتحاد میں شامل ہیں۔371 کے ایوان میں 1 آزاد امیدوار جعلی ڈگری کیس میں نااہلی ہوچکے ہیں۔
الیکشن کمیشن کا فیصلہ 23 صفحات پر مشتمل ہے جو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے تحریر کیا ہے۔ فیصلے کے مطابق وزیراعلیٰ کے انتخاب میں ارکان نے حمزہ شہباز کو ووٹ دیا جس سے انحراف ثابت ہو گیا۔
الیکشن کمیشن نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ کمیشن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ارکان نے وزیراعلی کے انتخاب میں مخالف جماعت کے امیدوار کو ووٹ دیا۔ مخالف امیداور کو ووٹ دینے سے انحراف ثابت ہو گیا ہے۔ الیکشن کمیشن منحرف ارکان کے خلاف ڈکلیریشن کو منظور کرتا ہے۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس اس ریفرنس سے متعلق دو آپشنز تھے۔ ہمارے پاس آپشن تھا کہ ووٹ ڈالنے والے ارکان کے خلاف ریفرنس کو 63 اے کی شرائط پوری نہ ہونے پر مسترد کر دیا جائے، دوسرا آپشن مخالف امیدوار کو پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے کا سنگین معاملہ کو دیکھنا تھا۔
الیکشن کمیشن نے رائے دی کہ ارکان کا مخالف امیدوار کو ووٹ ڈالنا ایک سنگین معاملہ ۔مخالف امیدوار کو ووٹ دینے پارٹی پالیسی سے دھوکہ دہی کی بدترین شکل ہے۔ اس لیے الیکشن کمیشن اس نتیجے پر پہنچا کہ انحراف کے معاملے کا انحصار شرائط پر پورا اترنے کے معاملے پر نہیں ہو گا۔