گاما پہلوان کا نام غلام محمد بخش بٹ تھا۔ لیکن گاما تھا کون؟ اس سوال کا ایک سادہ سا جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ یہ دنیا کی تاریخ کا عظیم ترین پہلوان تھا۔ شاید دنیا کی تاریخ کا غیر مسلح سب سے عظیم جنگجو، لیکن آسان الفاظ میں بس اتنا جان لیجیے کہ ایک بار گاما پہلوان نے انسانوں کے ایک پورے جلوس کو اکیلے بھگا دیا تھا۔ اس پر کچھ دیر میں واپس آتے ہیں۔
گاما پہلوان برصغیر کے پہلوانی سٹائل کا ماسٹر تھا جو کہ انتہائی کسرت کا مطالبہ کرتی ہے۔ اور گاما واقعی ایک شاندار پہلوان تھا۔ کتنا شاندار؟ اس بات کا اندازہ آپ یوں لگا لیجیے کہ اس نے پہلوانی 1895 میں شروع کی اور 1952 (یا کچھ ذرائع کے مطابق 1955) تک جاری رکھی۔ اس عرصے میں اس نے دنیا کے ہر بڑے پہلوان سے مقابلہ کیا۔ قریب 5000 کشتیاں لڑیں۔ اور ان 50 برسوں پر محیط کریئر اور 5000 کشتیوں میں گاما ایک بھی کشتی نہیں ہارا۔ جی ہاں، اس نے ایک بھی کشتی میں کبھی کسی پہلوان سے شکست نہیں کھائی۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کوئی جن ہوگا جسے اتنے برس کوئی شکست نہ دے سکا۔ جی ہاں، اس جن کا قد 5 فٹ 7 انچ تھا۔
گاما پہلوان کی کہانیاں اتنی زیادہ اور اتنی مضحکہ خیز ہیں کہ یہ کوئی افسانوی داستان لگتی ہیں۔ فرق بس یہ ہے کہ یہ کہانیاں کسی بچوں کے رسالے میں نہیں، اخباری رپورٹس کی صورت ہم تک پہنچتی رہیں۔ مثال کے طور پر گاما پہلوان نے ایک راجا کی جانب سے کروائے گئے ٹورنامنٹ میں حصہ لے کر اپنے کریئر کا آغاز کیا جب اس کی عمر صرف 10 برس تھی۔ اب چھوٹے قد کے ہونے کی وجہ سے گاما پہلوان کو کوئی سنجیدگی سے لینے کو تیار نہیں تھا۔ لیکن ایسے چھوٹے چھوٹے مسائل تو ہر سپر ہیرو کے سامنے آتے ہی ہیں۔ نوعمری میں ہی اس نے ایک اور عظیم پہلوان رحیم بخش سلطانی والا کا مقابلہ ہندوستان کی چیمپیئن شپ کے لئے کیا۔ 'گامے' سے کسی کو کوئی امید نہ تھی۔ لیکن پھر وہ یہ لڑائی جیتا۔ ہندوستان کا چیمپیئن بنا۔ رستمِ ہند۔
1910 تک گاما ہندوستان کے تمام پہلوانوں کو شکست دے چکا تھا اور اب اسے مقابلہ کرنے کے لئے پہلوان نہیں ملتے تھے۔ لہٰذا یہ لندن پہنچا۔ ایک بار پھر اس کے چھوٹے قد کا مذاق اڑایا گیا اور اسے ٹورنامنٹس میں جگہ نہیں دی جاتی تھی۔ بالآخر گاما پہلوان نے لوگوں کو چیلنج دینا شروع کر دیے۔ اس نے چیلنج دیا کہ وہ کسی بھی کیٹیگری کے 3 پہلوانوں کو 30 منٹ کے اندر اندر رنگ سے باہر پھینک دے گا۔ کوئی سامنے نہ آیا۔ لوگوں کو لگتا تھا یہ بیوقوف بنا رہا ہے۔ اس نے پہلوانوں کو انفرادی طور پر چینلج دینا شروع کیے۔ یہ انہیں دعوت دیتا تھا کہ اگر یہ انہیں شکست نہ دے سکا تو میچ کی رقم ادا کر کے واپس ہندوستان لوٹ جائے گا۔
بالآخر اسے ایک چیلنجر مل ہی گیا۔ امریکہ کے مشہور پہلوان بینجمن ڈاک رولر نے اس نوآموز سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ گاما پہلوان نے صرف 1 منٹ 40 سیکنڈ میں اسے زمین پر پٹخ دیا۔ حیران پریشان ڈاک نے دوبارہ میچ کا مطالبہ کیا۔ اس بار اس نے گرنے میں پورے 9 منٹ لگائے۔
اس کے بعد اس کا چیلنج قبول کرنے والا لیجنڈری پولش پہلوان سٹینس لاؤس زبیسکو تھا۔ داؤ پر جان بل بیلٹ اور 250 پاؤنڈ لگے تھے۔ 10 ستمبر 1910 کو گاما پہلوان اور زبیسکو کا مقابلہ ہوا اور یہ میچ 2 گھنٹے 36 منٹ چلا۔ زبیسکو پہلے منٹ میں ہی زمین پر گر گیا تھا لیکن پھر یہ اٹھا اور 2 گھنٹے 35 منٹ تک گاما پہلوان سے گھلتا رہا۔ 17 ستمبر کو لڑائی دوبارہ لڑی جانی تھی لیکن زبیسکو، جس کے نام سے بڑے بڑے پہلوان کانپتے تھے، گاما پہلوان کا مقابلہ کرنے رنگ میں نہ آیا۔ گاما اب ایک مانا ہوا پہلوان بن چکا تھا۔ رولر نے ایک بار پھر اسے چیلنج کیا اور اس بار 'گامے' نے اسے 15 منٹ میں 13 مرتبہ زمین پر پٹخا۔
اب ایک بار پھر گاما پہلوان کے سامنے وہی مشکل آن کھڑی ہوئی۔ مخالف پہلوان ختم ہو چکے تھے۔ کوئی اس سے کشتی لڑنے کو تیار نہ تھا۔ ایک بار اس نے دعوت دی کہ وہ ایک ایک کر کے رنگ میں 20 پہلوانوں سے لڑے گا لیکن کسی نے حامی نہ بھری۔
جب ثابت کرنے کو کچھ نہ بچا، تو گاما واپس ہندوستان لوٹ آیا۔
گاما کتنا طاقتور تھا؟ اس بات کا اندازہ یوں لگا لیجیے کا ایک بار اس نے 1200 کلو کا ایک پتھر اپنے ہاتھوں سے اٹھا لیا۔ یہ واقعہ اتنا مشہور ہے کہ یہ پتھر ایک عجائب گھر میں آج بھی موجود ہے۔ اور پھر ان کی ڈیلی روٹین دیکھ لیجیے۔ گاما روز 5000 بیٹھکیں اور 3000 ڈنڈ نکالتا تھا۔ کچھ ایسی ہی ٹریننگ بعد ازاں بروس لی نے بھی اپنائی تھی۔ اس کی خوراک کیا تھی؟ گاما پہلوان روز 10 لٹر دودھ، چھ دیسی مرغیاں اور قریب آدھا کلو پسے ہوئے باداموں کا پیسٹ بنا کر نوش کرتا تھا۔
خیر، گاما پہلوانی کی طرف لوٹ آیا اور اپنے کئی مخالفین کو چت کرتا کرتا قریب 1950 کی دہائی تک لڑتا رہا۔ گو کہ مد مقابل بتدریج ملنا مشکل ہوتے گئے۔ بس ایک سپیشل چیلنجر واپس آیا۔ زبیسکو۔ جی ہاں، زبیسکو واپس آ گیا تھا۔
42۔ ڈگلس ایڈمز کے مطابق ہر چیز کا جواب۔ زندگی کا جواب۔ کائنات کا جواب۔ کائنات کی ہر شے کا جواب۔ اور اتنے ہی سیکنڈ لگائے اس بار گاما پہلوان نے زبیسکو کو چت کرنے میں۔ اس کے بعد 'گامے' سے لڑنے کو کوئی تیار نہ ہوتا تھا۔ لہٰذا اس نے تاج برطانیہ سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے غریب بھارتیوں کے لئے مفت ریل کے سفر کے لئے مہم چلائی۔ اس نے ہندوستان کی انگریز سرکار کو چیلنج کیا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے ایک چلتی ٹرین کو روک کر دکھائے گا اگر بدلے میں 11 کلومیٹر کے ایک ٹریک پر سفر مفت کر دیا جائے۔ سرکار نے انکار کر دیا۔
1947 میں انگریز سرکار ہندوستان چھوڑ گئی۔ ہندوستان کا بٹوارہ ہو گیا۔ دیش بھر میں مذہبی فسادات شروع ہو گئے۔ دونوں دیشوں میں۔ گاما مسلمان تھا، اب پاکستانی تھا اور لاہور میں رہائش پذید تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے گرد رہائش پذیر ہندوؤں کی حفاظت کرے گا۔ لہٰذا بوڑھے گاما پہلوان نے اپنے اکھاڑے سے کچھ پہلوانوں کو جمع کیا اور ایک ہندو محلے پہنچ گئے جہاں ایک مسلح جتھہ آگ لگانے کو پہنچ رہا تھا۔
گاما اس محلے اور جتھے کے درمیان کھڑا ہو گیا۔
اور یہیں سے اس کردار نے افسانوی حیثیت حاصل کر لی۔ وہ لمحہ جب یہ شخص ایک لیجینڈ میں تبدیل ہو گیا۔
جلوس نے گامے کو کہا اس کے راستے سے ہٹ جائے۔ گامے نے جواب دیا جلوس اس کے راستے سے ہٹ جائے۔ جلوس نے پوچھا کیا اسے لگتا ہے وہ ان سب سے لڑ سکتا ہے؟ گامے نے پوچھا کیا جلوس کو لگتا ہے وہ اس سے لڑ سکتا ہے؟
چند لمحے خاموشی رہی۔ اور پھر ایک شخص گامے پر حملہ آور ہوا۔ گامے نے اسے تھپڑ مارا۔
اب آپ ان میں سے کون سی روایت پر یقین کرتے ہیں، یہ آپ پر منحصر ہے لیکن تین روایتیں ہیں۔ 1) اس شخص کا جبڑا ٹوٹ گیا۔ 2) یہ بے ہوش ہو گیا۔ 3) یہ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔ یہ متفقہ علیہ کہ یہ شخص اڑتا ہوا واپس گیا۔ گاما مسکرایا اور پوچھا۔ اب کون ہے؟ جلوس بھاگ کھڑا ہوا۔
گاما پہلوان 1960 میں انتقال کر گیا۔ اس کی نواسی کلثوم نواز پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اہلیہ تھیں۔ اور گاما پہلوان کے خاندان کے سیاسی اثر و رسوخ اور کردار کے بغیر نواز شریف کا سیاسی کریئر کبھی وہ عروج نہیں پا سکتا تھا، جو اسے ملا۔
یہ مضمون شیو راماداس کے 22 مئی 2022 کو شائع ہونے والے ٹوئٹر تھریڈ کا اردو ترجمہ ہے۔
https://twitter.com/nameshiv/status/1528298119460376576