امریکی نشریاتی ادارے سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ امریکی عہدیدار ڈونلڈ لوو کو برطرف کیا جانا چاہیے۔ تصور کریں کہ وہ سفیر سے منتخب وزیر اعظم سے جان چھڑانے کے لئے کہہ رہے تھے۔
پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کے اندورنی معاملات میں بھرپور مداخلت کی گئی، کوئی غير مقبول حکومت مسلط کی جاتی ہے تو عوام اس کو قبول نہيں کرتے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ڈونلڈ لوو کی ملاقات سے پہلے امريکی سفارتکار ہمارے ارکان سے مل رہے تھے، انہیں ہمارے غیر اہم اراکین اسمبلی سے ملاقاتوں کی آخر کیا ضرورت تھی؟ بعد میں یہی لوگ ہمیں چھوڑ کر گئے۔
https://twitter.com/PTIofficial/status/1528758049564925954?s=20&t=-77sa3iVkmv8qJzFHDuPZQ
ایک سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظاميہ سے ميرے بہت اچھے تعلقات تھے لیکن بائيڈن انتظاميہ کے بعد اس میں تبديلی آئی۔ اسی وقت افغانستان ميں حالات بدلے۔ دورہ ماسکو پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ روس نے ہميں 30 فيصد کم پر تيل اور گيس دينے کی پيشکش کی تھی۔ روس کا دورہ بہت پہلے سے طے تھا، اسٹيک ہولڈرز کو اعتماد ميں ليا گيا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی عہدیدار نے ہمارے سفیر کو کہا کہ اگر عمران خان کیخلاف تحریک عدم کامیاب ہوگئی تو پاکستان کو معاف کردیا جائے گا۔ ہم نے یہ تمام معاملات کیبینٹ کے سامنے رکھے۔ سائفر سے متعلق قومی سلامتی کمیٹی کو بھی بتایا، اس نے ڈيمارش دينے، امريکی حکومت سے احتجاج کا فيصلہ کيا، اس کے علاوہ صدر نے چيف جسٹس کو مراسلہ بھجوايا کہ اس کی تحقيقات کروائی جائیں۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایک بار پھر اپنی حکومت کے خاتمے کو غیر ملکی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر امریکہ کا اس میں کوئی کردار نہیں تو انہیں ہمارے ‘بیک بینچرز’ سے ملاقاتوں میں کیوں دلچسپی تھی؟