جب ہزارہ اپنی میتوں کو دفنانے سے انکاری ہوئے پڑے تھے
یہاں یہ مٹھی بھر "کیپیٹلسٹ" ہی سڑکوں پر نہ تھے، اس مسئلے پر احتجاجی مظاہرے ملک بھر میں جا بجا جاری تھے۔ معاملہ ایسا ہی گھمبیر ہو چلا تھا کہ یہ سب جلسے جلسیاں جلوس ریلیاں ملا کر بھی اس گہرے دکھ کا احاطہ کرنے سے قاصر تھے جو حالات کی تہہ میں کار فرما تھا۔ ظلمات کے قلب تک رسائی کو جوزف کونراڈ کا قلم چاہیے یا چنوا چیبے کا جگرا۔ ہزاروں میل دور کوئٹہ کی سنگلاخ سردی میں ہزارہ کمیونٹی کے سینکڑوں افراد کئی روز و شب سے سڑکوں پر تھے۔ شاید یہ کوئی ایسی نئی بات نہ تھی۔ نہ یہ کہ ان کے سامنے ان کے پیاروں کے تابوت دھرے تھے۔ نئی بات اس میں کچھ تھی تو یہ کہ ہزارہ برادری اس بار مقتولین کے جنازے اٹھانے، میتیں دفنانے سے انکاری ہوئے پڑے تھے۔
فہمیدہ ریاض کی للکار
موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حارث خلیق اور علی اکبر ناطق نے اچھی اچھی نظمیں سنائیں۔ ایک قبل از عشرہ قسم کا عشرہ میں نے بھی پیش کیا۔ بات مانو، ہمارا یہ اک کام کر دو، ہمیں دفن کر دو! اس تاریک طنزیہ مطالبے کے برعکس جس روشن للکار نے لانگ کوٹوں، جیکٹوں، مفلروں اور سویٹروں میں مدفون و مدہوش اس ہجوم کو زندہ و بیدار کر دیا وہ فہمیدہ ریاض کے علاوہ کسی اور کی نہ تھی۔ ستر سالہ ادیبہ نے پیروں کو جوانوں کا استاد ثابت کیا تو بجا کیا، اس بزرگ کی گفتارمیں وہ تازگی تھی جو ترقی پسندوں، جدیدیوں سمیت لنڈے کے لبرلوں میں ڈھونڈے نہیں ملتی۔ اس خاتون کی پامردی میں وہ جرأت تھی جو کرائے کے ایکٹوزم میں مفقود ہوتی ہے۔ جیسی متوالی شاعری ویسی ہی جیالی گفتگو۔ (یہ الگ بات کہ شام ڈھلے جماعت اسلامی کے مقامی اس جلوس میں در آئے اور اگلے روز ڈان کو چھوڑ کر سب اخباروں نے احتجاج انہی کے کھاتے میں جمع کرا کے ثواب کمایا)۔
ہر جگہ، ہر وقت سے وہ اپنی خوشیاں اپنے غم اپنے نظریات احساسات سب اپنے قارئین سے شئیر کرتی چلی گئیں
یہ ان سے پہلی ملاقات تھی نہ آخری۔ مگر ہر بار یہی تاثر ملا کہ ان کو کوئی تاثر چھوڑنے کی جلدی نہیں تھی۔ شاید پہلے، بہت پہلے کبھی رہی بھی ہو۔ پتھر کی زبان اور بدن دریدہ سے کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے اور آدمی کی زندگی تک، فہمیدہ ریاض کا محض شعری سفر ہی کوئی نصف صدی پر محیط تو ہو گا۔ او ایل شباب میں آغاز ہونے والے اس طویل ادبی سفر کے دوران فہمیدہ ریاض نے کیا کچھ نہیں کہا اور سہا۔ شاعری کی، تراجم پر توجہ دی، فکشن، نان فکشن سب لکھا۔ ادارت سے ایکٹوزم تک ہر بیڑا اٹھایا۔ کبھی جلاوطنی کے تجربے سے گزری تو کہیں ثقافتی سیاحت سے جی بہلایا۔ حتیٰ کہ اردو لغت بورڈ کی سربراہی بھی نبھائی۔ ہر جگہ، ہر وقت سے وہ اپنی خوشیاں اپنے غم اپنے نظریات احساسات سب اپنے قارئین سے شئیر کرتی چلی گئیں۔
لکھنے والوں کے بھی جن ہوتے ہیں
وہ گنتی کی ان چند بڑی لکھاریوں میں سے تھیں جن کا اپنے قاری سے ایک ماورائی سا تعلق بن جاتا ہے۔ یورپ سے واپسی پر وسائل و مسائل میں گھرے شاعر کو ہمیشہ یاد رہے گا جب ایک بھرپور تقریب کو ایک طرف کرتے ہوئے وہ سگریٹ پینے چلیں تو مجھے خود بھی یہی لگا کہ خوامخواہ ساتھ لے لیا۔ آدھی ڈبی پر پوری داستان سن کر انہوں نے میرے شانے پر تھپکی دی اور فرمایا، تمہیں کچھ نہیں ہو گا۔ میں ناراضی سے کچھ کہنے چلا تھا کہ سنی ان سنی کرتے بولیں، تمہیں پتا ہے نا ہم لکھنے والوں کو کبھی کچھ نہیں ہو سکتا، ہمارے پاس اپنے جن ہوتے ہیں، ہوتے ہیں نا؟ مجھے ماننا پڑا کہ جن ہوتے ہیں۔ اور بعضے فرشتے بھی، جو خط مر نوز میں گوداوری کی جدید فینتاسی قلمبند کرتے ہیں۔
میرٹھ میں پیدا ہونے والی، سندھ میں رچنے اور جہاں بھر میں بسنے والی شاعرہ کی زندگی میں کئی موڑ آئے اور ادب میں بھی۔ بہت مقدمے بھی بنے، کئی فتوے بھی لگے۔ کچھ عہدے بھی عطا ہوئے، کچھ ایوارڈ بھی ملے۔ جزا سزا سب یہیں پہ چلتی رہی۔ محمد خالد اختر اور احمد ندیم قاسمی سے افضال سید اور اجمل کمال تک سب نے انہیں محبت اور عزت سے یاد رکھا۔
’بیس سو گیارہ‘
کچھ عرصہ پہلے بھی سوشل میڈیا پر ان کے شدید بیمار ہونے کی خبر پھیلی۔ فیس بک پر احوال پرسی کا جواب انہوں نے شگفتہ مزاجی سے دیا۔ میں نے ایک پرانی غزل میں کچھ شعر ٹانک کے ان کی تفریح طبع کے لئے پیش کیے۔ ردیف تھی ایک ہزار ایک دن۔ جو انہیں کچھ ایسی پسند آئی کہ اکادمی ادبیات کی کانفرنس میں کتنے ہی بے گناہوں کو طلب کر کے سنوائی۔ ان کی جانب سے ایک فین کے لئے یہ محبت ایسی ناقابل فراموش تھی کہ میں نے آئندہ مجموعے کو یہی عنوان دینے اور انہی سے منسوب کرنے کا ارادہ کیا۔ ـبیس سو گیارہ‘، ان کی محبوب کتاب، مصنف خود انہی کے نام کر گئے۔ فہمیدہ ریاض کے حضور میں کب کا حاضر ہو چکا۔ قلعہ فراموشی کو تسخیر کیے بھی کئی برس ہو چلے۔ اور تم کبیر۔۔۔ آخر وہی ہوا کہ فہمیدہ ریاض سب کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل گئیں۔