تحقیق کی جائے تو واضح پوتا ہے کہ یہ ایک مضمون ہے جس میں اس بات پر تجزیہ پیش کیا گیا ہے کہ کیسے پی ڈیم ایم کی چھتری تلے جماعتیں حکومت مخالف تحریک چلا رہی ہیں اور اس کی کامیابی کے کیا آثار ہیں۔ اس حوالے سے یہ بھی تجزیہ کیا گیا ہے حکومت کو لانے میں طاقتور ادارے فوج کا کردار کیا رہا۔
اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بظاہر پی ٹی آئی کے حامی اکاؤنٹس مسلسل تنقیدی ٹویٹس کر رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر نے بی بی سی سے سوال پوچھا ہے کہ کس نے اس مضمون کو چھپنے دیا؟؟ اب بی بی سی کامعیار کیا رہ گیا ہے۔ کچھ نے بی بی سی کی رپورٹنگ کو فیک قرار دیتے ہوئے اسے قابل مذمت قرار دیا۔
https://twitter.com/CanttOffical/status/1330808513522786304
جبکہ بی بی سی کو پاکستان مخالف بھی قرار دیا جارہا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا اس مضمون میں کی لکھا گیا ہے؟ اگر اس مضمون کو دیکھیں تو یہ بی بی سی اسلام آباد کے محمد الیاس نے لکھا ہے اور اس کا عنوان ہے پی ڈی ایم کٹھ پتلی حکومت سے نجات چاہتی ہے۔ زیادہ تر تنقید اسی عنوان پر کی گئی ہے جسے تعصب پر مبنی قرار دیا جا رہا ہے۔ مضمون میں 2018 کے الیکشنز پر سوالات اٹھائے گئے ہیں اور ایک تجزیہ کار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ 2018 کا الیکشن غیر منصفانہ تھا اور اس میں سیاسی پارٹیوں کے پاس مواقع ایک جیسے نہ تھے۔
اس مضمون میں صاف لکھا گیا ہےاس حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ ملی۔ ایسے میں کہ جب 2018 کے الیکشن ہو رہے تھے تو ان میں تمام سروے ن لیگ کی کامیابی کی پیش گوئی کرتے تھے اہم تحریک انصاف معمولی فرق سے الیکشن لے اڑی۔
اس میں اس بات کا بھی ذر ہے کہ کیسے الیکشن کے دوران فوج پولنگ سٹینزمیں بھی تعینات رہی جس پر ایر آر سی پی نے اپنے تحفظات سے آگا کیا تھا۔
جبکہ حال ہی میں کراچی جلسے کے بعد ہوٹل کا دروازہ توڑ کر کیپٹن صفدر کو گرفتار کیا گیا اور اس کے لیئے آئی جی سندھ کو اغوا بھی کیا گیا اور سیکٹر ہاؤس میں جا کر کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے وارنٹس پر سائن کروائے۔ مصنف کے مطابق اس واقعے سے سویلین سمیت فوج کی بھی بہت سبکی ہوئی۔
تجزیہ کار لکھتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی ستریٹیجی حکومت میں آنے والوں کو لانے والوں بھی نشانہ بنانا ہے جس کی وجہ ے وہ دباؤ میں آجائیں۔
سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے حامیوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ بی بی سی ایک ایسی تحریک کو سپورٹ کر رہا ہے جس میں مفرور مجرم بھی شریک ہے۔