آڈیو ٹیپ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ہی ہے: علی احمد کرد

آڈیو ٹیپ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ہی ہے: علی احمد کرد
علی احمد کرد نے کہا ہے کہ ثاقب نثار کو میں تو کیا سارا پاکستان جانتا ہے۔ ممکن ہے کہ میں اس معاملے میں غلط ہو سکتا ہوں، مگر جس طرح سے انہوں نے اپنا دور گزارا، یہ آڈیو بالکل درست اور ان ہی کی ہے۔ یہ بات انہوں نے نجی چینل کیساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

خیال رہے کہ ان دنوں میڈیا میں ایک آڈیو ٹیپ زیر گردش ہے جس میں مبینہ طور پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار بات کرتے سنائی دے رہے ہیں کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے کیلئے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو سزا دلوانا ہوگی۔

تاہم ثاقب نثار نے اس آڈیو ٹیپ کو جھوٹی اور من گھڑت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں کسی سے بھی ایسی بات نہیں کی۔ پاکستانی سیاست میں بیان حلفی اور آڈیو لیک کے بعد بھونچال کی سی کیفیت ہے۔

اسی معاملے کو لے کر حکمران جماعت اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے درمیان لفظی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے آڈیو ٹیپ منظر عام پر آنے کے بعد مطالبہ کیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم کیخلاف کیسوں کو ختم کر دیا جائے۔

ادھر وفاقی وزیر فواد چودھری نے آڈیو ٹیپ کی ذمہ داری مسلم لیگ (ن) پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مریم نواز شریف نے ایسے کاموں کیلئے باقاعدہ ایک ٹیم بنائی ہوئی ہے۔ جیسے ہی عدالتوں میں کیس چلنا شروع ہوتے ہیں، ایسی آڈیوز اور ویڈیوز کو منظر عام پر لے آیا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ صحافی احمد نورانی نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے منسوب مبینہ آڈیو ٹیپ کی خبر بریک کی تھی۔ نیا دور ٹی وی سے گفتگو میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کے پاس اس خبر کے مکمل ثبوت موجود ہیں، انہوں نے تمام شکوک وشبہات کو دور کرکے ہی اسے ذمہ داری کیساتھ رپورٹ کیا۔

یہ بھی پڑھیں:میری سٹوری کے ناقابل تردید ثبوت موجود، امریکی فرم سے فرانزک کروایا: احمد نورانی

احمد نورانی کا کہنا تھا کہ ایک صحافی ایسی ہی خبر کو تحریر میں لاتا ہے جس کا ناقابل تردید ثبوت موجود ہو۔ سوال یہ کہ ثاقب نثار کی آڈیو ٹیپ میں وہ کس سے بات کر رہے ہیں، تو میری سٹوری کو اگر غور سے پڑھا جائے تو اس کا جواب مل جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ مجھے دو ماہ قبل یہ آڈیو ریکارڈنگ ملی جس کو میں نے شک کی نگاہ سے ہی دیکھا کہ اس میں موجود آواز سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ہے بھی یا نہیں اور یا کسی بھی حوالے سے ٹیمپرڈ تو نہیں ہے؟ کیونکہ اس میں بہت ہی اہم اداروں اور شخصیات کا ذکر تھا۔ یہ چیز بڑی واضح تھی کہ ایسی کوئی بھی خبر سامنے آنے سے قانونی کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ”خبر سے آگے” میں اپنی سٹوری پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مجھے ہر چیز کی احتیاط کرنا تھی۔ اس مقصد کیلئے سب سے پہلے میں نے آواز کی جانچ کروائی کہ آیا یہ اوریجنل ہے یا نہیں۔ اس مقصد کیلئے ہمیں ایک دوسرا وائس سیمپل چاہیے تھا، وہ بجائے میں نے کسی سے لینے کے ریڈیو پاکستان کی آفیشل ویب سائٹ سے حاصل کیا۔ وہاں سے ہمیں آواز کے بہت سے سیمپلز ملے جس کا جب آڈیو سے میچ کیا گیا تو اس کا سو فیصد رزلٹ آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے اس بات پر ہنسی آ رہی ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ اس آڈیو کو کاٹ چھانٹ کرکے بنایا گیا کیونکہ میں نے جس امریکی فرانزک لیب سے اسے چیک کرایا اس نے اپنی مکمل رپورٹ میں کہا ہے کہ اس میں کسی قسم کی ایڈیٹنگ نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ میری یہ ذمہ داری تھی کہ میں اپنی اس خبر کیلئے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا بھی موقف حاصل کروں۔ اس مقصد کیلئے میں نے انھیں ٹیلی فون کیا اور تمام باتیں ان کے گوش گزار کیں تو انہوں نے پورے وثوق کیساتھ کہا کہ کیس کے دوران ان سے کبھی کسی فوج کے بندے نے رابطہ نہیں کیا۔ عدلیہ پر کسی قسم کا دبائو نہیں تھا۔