پاٹے خان؛ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر یا مسٹر بُھول چُوک معاف؟

01:37 PM, 23 Nov, 2022

محمد شہزاد
پاٹے خان المعروف یوٹرن خان کے نت نئے اوصاف کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔ بھئی جب حمام میں سب ہی ننگے ہوں تو ایک دوسرے کی خوبیوں کے گن کیوں نہ گائیں؟

ایک صفت پٹواریوں کی مہارانی اپنے مگر مچھ کی کھال سے بنے بیش قیمت پرس سے کاغذ کے پرزے کی صورت میں برآمد کرتی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ پرس کسی پرستان کے شہزادے کا تحفہ ہے۔ جو جیب خرچ انہیں ابا جی سے ملتا ہے اس میں تو 'فرخ بھابی' کے ہاتھ کا بنا بٹوہ بھی نہیں آتا! (نئی نسل واقف نہ ہو گی اس استعارے سے۔ فرخ بھابی کو سمجھنے کے لئے غلام عباس کا افسانہ 'حمام میں' پڑھنا پڑے گا۔) پھر اس کے بعد مہارانی یوٹیوب پر اپنے کروڑوں چاہنے والوں سے لائیو مخاطب ہوتی ہیں جسے قریب پانچ سے چھ Viewers دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ باقی سلیمانی ٹوپی پہن کر دیکھتے ہیں کہ کہیں ان پر کوئی پاٹے خان ٹائپ حملہ نہ ہو جائے۔ احتیاط لازمی ہے!

اس کے بعد مہارانی کے He Fled والے گھاس پھونس سے تیار جھونپڑے کے ارد گرد پاٹے کے لاکھوں کروڑوں بچے (پی ٹی آئی کے بچے عمران خان کو اپنا والد محترم مانتے ہیں۔ بلکہ حقیقی والد سے بھی اوپر لارڈ نیلسن کی مانند!) اکٹھے ہو جاتے ہیں اور مہارانی کی پاٹے کے حوالے سے ایک صفت کے مقابلے میں اس کی ایک ہزار خوبیوں کے گن لاؤڈ سپیکر پر سکاٹ لینڈ یارڈ کی سرپرستی میں گاتے ہیں۔

مہارانی کی سوشل میڈیا ٹیم نکمی ہے۔ تاریخ تو دور کی بات، عصر حاضر کی سیاسی جگتوں سے بھی نابلد ہے۔ علم ہی نہیں کہ پاٹے خان کی اصلیت کیا ہے۔ بے کار میں اسے گھڑی چور، کارتوس خان، تبدیلی خان، طالبان خان، سونامی خان وغیرہ وغیرہ کہتے رہتے ہیں۔ ہم بتلائے دیتے ہیں کہ پاٹے اصل میں ہے کیا۔ وہ ہے سی۔ایم۔ایل۔اے (CMLA)۔

یار لوگ سمجھیں گے کہ پاٹے Chief Martial Law Administrator (CMLA) ہے کیونکہ بڑی آرزو تھی اس کی کہ مارشل لا لگ جاوے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔ پاٹے خان دراصل Cancel My Last Announcement! ہے یا یوں سمجھیں کہ مسٹر بُھول چُوک معاف ہے۔

جی ہاں۔ ایک دن اناؤنس کرتا ہے کہ اس کی حکومت کو فوج نے گرایا۔ دوسرے دن کہتا ہے؛ نہیں نہیں، فوج نے نہیں امریکہ نے گرایا۔ تیسرے دن کہتا ہے؛ نہیں نہیں۔ امریکہ نے نہیں، جنرل باجوہ نے گرایا۔ چوتھے دن؛ نہیں نہیں، میری حکومت کو کسی نے نہیں گرایا، ٹھیکیدار نے پورا سمینٹ سریا استعمال نہیں کیا، لہٰذا دھڑام سے شیر شاہ پل کی طرح گر پڑی۔ اسٹیبلشمنٹ تو ہرگز شامل نہ تھی۔

پہلے دن: امریکہ ہمارا ازلی دشمن ہے۔ اب اس کے آگے میاؤں میاؤں نہیں کریں گے۔ اس کی غلامی نامنظور! یعنی Absolutely Not!
دوسرے دن: ازلی دشمن والی بات پرانی ہو چکی! اب وہ ہمارا جگری یار ہے۔ برابری کی سطح پر یاری کریں گے اور غلامی کے پچھلے ریکارڈ بھی توڑ دیں گے!

پہلے دن: آرمی چیف لگانا صرف میرا حق ہے۔ الیکشن ابھی کراؤ۔ میں جیتوں گا۔ پھر آرمی چیف لگاؤں گا۔
دوسرے دن: آرمی چیف بھلے ساری عمر وردی سے چمٹا رہے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ بس مجھے دوبارہ وزیر اعظم بنا دو۔
تیسرے دن: کسی کو بھی آرمی چیف لگا دو۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نہ کراؤ الیکشن، میری تو مقبولیت بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ لگا دو مارشل لا۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا!

پہلے دن: شیدے ٹلی المعروف شیخ رشید جیسا کمینہ میں نے زندگی میں نہیں دیکھا۔ اسے تو میں اپنا چپڑاسی بھی نہ بھرتی کروں۔
دوسرے دن: شیدے ٹلی سے بڑا قابل کوئی نہیں۔ آج سے یہ ریلوے کا منسٹر اور کل سے وزیر داخلہ!

پہلے دن: میں جا رہا ہوں لندن الطاف حسین پر مقدمہ کرنے۔ اسے پاکستان گھسیٹ کر لاؤں گا۔
دوسرے دن: الطاف حسین؟ کون الطاف حسین؟ میں تو کسی طیفے کو نہیں جانتا!

یاد آیا کچھ؟ 70 کی دہائی میں جانا پڑے گا۔ مرد منافق، بابائے دروغ گوئی ضیاء الحق اقتدار پر قابض ہوا اپنے محسن ذوالفقار علی بھٹو کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر اور بن بیٹھا Chief Martial Law Administrator (CMLA)!
بعد میں اسے پھائے لگا دیا قصوری قتل کیس میں۔ جب پہلی بار آیا تو بڑی بڑی قرآنی آیات سے تقریر شروع کر کے وعدہ کیا کہ 90 دن کے اندر اندر صاف و شفاف الیکشن کرا کر دفعان ہو جاوے گا۔ 90 دن آئے۔ ہر 90 دن کے بعد یہی پلٹہ دہراتا۔ دہراتے دہراتے 11 برس بیت گئے۔ پھر پھٹ گیا بہاولپور کے صحرا میں۔ خس کم جہاں پاک!

اس Chief Martial Law Administrator (CMLA) کو اس وقت کے یوتھیے یعنی پی پی پی کے جیالے Cancel My Last Announcement (CMLA) پکارا کرتے تھے۔ لیکن خوبی ملاحظہ ہو۔ مزاح شاندار تھا۔ پھکڑ پن ہرگز نہ تھا۔ اب تو بات پھکڑ پن سے بھی نیچے گر کر گالی گلوچ تک آن پہنچی ہے۔ مگر یہاں پر بھی ٹھہرتی نظر نہیں آتی۔ ایک درجے اور گری اور قذف کا ہدف پار کر گئی۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!
مزیدخبریں