وزارت داخلہ کی جانب سے ارسال کئے گئے خط میں تمام صوبائی حکومتوں، جی بی اور آزاد کشمیر کی حکومتوں کو بتایا گیا ہے کہ لانگ مارچ کے دوران فول پروف سکیورٹی یقینی بنائی جائے۔
خط میں مزید کہا گیا کہ حقیقی آزادی مارچ کی جڑواں شہروں میں آمد کی رسک اسسمنٹ کی گئی۔مختلف گروپوں نے لانگ مارچ سے متعلق تھریٹ جاری کر رکھے ہیں۔
خط کےمتن میں بتایا گیا کہ انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق لانگ مارچ میں عمران خان اور عوام کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔
وزارت داخلہ کی جانب سے لکھے گئے خط میں انٹیلی جنس ایجنسیز کی جانب سے موصول ہوئی معلومات کا کچھ حصہ بھی شامل ہے۔ اس کے مطابق حملہ آور کی ویڈیو لیک ہونے کی وجہ سے بھی خدشہ بڑھ گیا ہے۔ تحریک لبیک پاکستان کے انتہا پسند ممبران کا سوچنا ہے کہ ملک میں ٹی ایل پی کے خلاف پولیس کریک ڈاون کے ذمہ دار عمران خان ہیں اس لئے یہ خدشہ بھی ہے کہ تحریک لبیک سے تعلق رکھنے والا کوئی انتہا پسند بھی انتقام کی خاطر حملہ کر سکتا ہے۔
مجلس وحدتِ مسلمین کے ساتھ پی ٹی آئی کا اتحاد اور لانگ مارچ میں ایم ڈبلیو ایم کے تربیت یافتہ اہلکاروں کی شرکت اسے شیعہ مخالف عسکریت پسندوں، خاص طور پر آئی ایس کے پی کا ہدف بناتی ہے کیونکہ تحریک طالبان کے افغانستان پر قابض ہونے کے بعد داعش کے کارندوں کی ایک بڑی تعداد افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور دہشتگرد گروپ القاعدہ کی جانب سے بھی خودکش حملے کا خطرہ ہے۔
وزارت داخلہ کے مراسلے میں خبردارکیا گیا ہےکہ عوامی اجتماعات میں خودکش یا بم حملہ بھی ہوسکتا ہے، پی ٹی آئی راولپنڈی میں عوامی اجتماع کو مؤخر کرے۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کی جانب سے گزشتہ روز اعلان کیا گیا تھا کہ لانگ مارچ 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچے گا جہاں پر وہ اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ (حقیقی آزادی مارچ) کا آغاز 28 اکتوبر کو لاہور سے ہوا تھا ۔ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ پر وزیرآباد میں اللہ والا چوک کے قریب 3 نومبر کو نامعلوم مسلحہ حملہ آور نے حملہ کیا جس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سمیت متعدد لوگ زخمی ہوئے جبکہ ایک شخص جاں بحق ہو ا۔