یہی وجہ ہے کہ روایتی سیاسی اشرافیہ اس طاقت سے خوف زدہ ہے اورایک سازش کے تحت پاکستان میں طلباء سیاست کو بین کیا گیا تاکہ نئے خیالات کا حامل طبقہ روایتی طرز سیاست پر سوال اٹھانے کی بغاوت نہ کر سکے۔
طلباء کو سیاست سے دور رہنے کی تنبیہہ کی جاتی ہے اور نئی سیاسی سوچ کو پروان چڑھنے نہیں دیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا سیاسی کلچر چند ایک خاندانوں کی اجارہ داری سے عبارت ہے۔ طلباء سیاست کی عدم موجودگی کی وجہ سے ملک کیلئے اہل اور قابل سیاسی لیڈرز کی کمی مستقبل میں بہت بڑا لیڈر شپ بحران پیدا کریگی اور وہی طبقہ براسر اقتدار رہے گا جو نسل در نسل ہم پر حکومت کرتا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ اور مردم شماری کے مطابق پاکستان میں اس وقت نوجوانوں کی تعداد 64 فی صد ہے۔ جن میں سے اکثر نوجوان تعلیم حاصل نہیں کر پارہے۔ یعنی وہ ملک کے سیاسی مستقبل باگ دوڑ سے باہر تصور کئے جا سکتے ہیں۔
بقیہ جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان میں سے بھی اڑھائی فیصد کالج اور صرف10 فیصد یونیورسٹی تک پہنچتے ہیں جن سے باقاعدہ حلف لیا جاتا ہے کہ آپ سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے۔ جو کہ آئین پاکستان کی آرٹیکل سولہ اور سترہ کی خلاف ورزی ہے۔
برٹولٹ بریچ جہالت کی درجہ بندی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سب سے بڑا جاہل سیاسی جاہل ہوتا ہے، وہ نا بولتا ہے، نا سنتا ہے نا ہی سیاسی معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔اسے دال ، مچھلی ، آٹے، کرائے، جوتوں اور ادویات حتی کہ زندگی کی بھی قیمت کا اندازہ نہیں ہوتا جن سب کا تعین سیاست دان کرتے ہیں۔ اگر سیاسی جاہل اپنی رائے نہیں رکھے گا، سیاست میں حصہ نہیں لے گا تو وہ کرپٹ حکمرانوں کو مضبوط کریگا۔ وہ کم عقل سینہ تان کر کہتا ہے کہ اسے سیاست سے نفرت ہے لیکن وہ نہیں جانتا کہ اسکی سیاسی جہالت طوائف کو جنم دیگی، بچوں کو بھوکا مارے گی، چور ، ڈاکو اور کرپٹ سیاستدان پیدا کریگی۔
پاکستان میں ایسے جاہلوں کی فراوانی ہے۔ ہر پڑھنے لکھنے والا اگر غیر سیاسی ہے تو وہ جاہل ہے۔ سیاسی خواندگی اور تعلیمی خواندگی میں ایک واضع فرق پایا جاتاہے۔ بہت سے پڑھے لکھے لوگ ملکی سیاسی تاریخ اور پس منظر سے نا واقف ہیں ۔ ان کی سوچ اور ایک اب پڑھ کی غیر سیاسی سوچ کا معیار ایک جیسا ہے۔ طلباء کو بھی ایسا جاہل بنایا جا رہا ہے، جدید سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام نے انہیں مادیت پرستی میں مشغول کر دیا ہے اور طلباء کی سیاست میں مداخلت انکے مستقبل کیلئے خطرہ بنا کرپیش کی جاتی ہے۔
حالیہ آئی ایم ایف کے قرضے کے بعد پاکستان سرمایہ دارانہ استبداد کے نیچے دبایا جا چکا ہے۔ ان قرضوں کی وجہ سے سب سے زیادہ مثاثر ہونے والے عناصر تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات ہیں جنکا تعلق براہ راست عوام سے ہے۔ ریاست پاکستان کے شہری ہیلی کاپٹر سے لیکر سوئی تک ٹیکس دینے کے باوجود بھی ان بنیادی سہولیات سے محروم ہو رہے ہیں۔ بلکہ ان قرضوں کی شرائط کی صورت ان سہولیات کو سنجیدگی سے عوام سے دور کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔
طلباء کیلئے مفت تعلیم تو درکنا اسے مزید مہنگا کر دیا گیا ہے، تمام سکالر شپس بند کر دی گئی ہیں، سرکاری اداروں میں نئے داخل ہونے والے طلباء کی تعداد میں خاطر خواہ کمی کر دی گئی ہے، یونیورسٹی کی زمینیں سو سالہ لیز پر دی جا رہی ہیں، طلباء کیلئے تعلیمی ادارے نہیں جبکہ دور دراز سے حصولِ علم کیلئے آنے والوں کے رہنے کو ہاسٹل نہیں ہیں، انکے آمد و رفت کیلئے سہولیات نہیں ہیں، پرانی تعمیرات بوسیدہ حال ہیں، طلباء کے کھیلنے کیلئے میدان نہیں جبکہ زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائی جا رہی ہیں۔
اس اثناء میں طلباء کو خاموش کرنے کیلئے ان پر مختلف قسم کی پابندیاں لگا دی گئیں ہیں، انتظامیہ اور حکومت کی ملی بھگت ہر ممکن کوشش میں ہے کہ اپنے روشن مستقبل کیلئے اٹھنے والی آوازوں کو دبایا جا سکے۔ اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانے والے طلباء کو انتشار پسند طلباء کہا جاتا ہے۔ مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے ان کے سوالات کو دبایا جاتا ہے۔ اپنے بنیادی حقوق کی خاطر جنگ لڑنے والے طلباء پر اداروں کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیکر ان پر ڈسپلنری کیمٹیاں بٹھا دی گئیں جس کی بناء پر انہیں تعلیمی اداروں سے نکال کر حصول علم سے دور کیا جا رہا ہے۔
بہت سی جامعات نے ان پر دہشتگردی کے مقدمے بنائے اور آج بھی ایسے چند ایک طلباء ہیں جنکو اپنا حق مانگنے پر پابندِ سلاسل کیا گیا۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلباء پر ایف آئی آر کاٹی گئی اسی طرح حیدر آباد میں طلباء یونین کی بحالی کیلئے نکلنے والے طلباء کو غائب کیا گیا۔ جامعہ پنجاب میں طلباء پر دہشتگردی کے مقدمات چلائے گئے اور ڈسپلنری کمیٹیوں کے سامنے پیش پونے والے بے شمار طلباء کو یونیورسٹیوں سے نکالا گیا۔
کسی نے درست کہا تھا کہ ظلم جب حد سے بڑھتا پے تو مٹ جاتا ہے۔ بڑھتے ہوئے طلباء کے اس استحصال نے ان میں لڑنے کی ایک قوت بخشی۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ حالات کے پیش نظرچند تعلیمی اداروں میں طلباء نے اس جمود کو توڑا اور اس فرسودہ نظام اور خود ہر ہونے والےحکومتی اور انتظامی مظالم کیخلاف دما دم مست قلندر کا نعرہ بلند کر دیا ہے۔
ولی خان یونیورسٹی میں انتظامیہ کی کرپشن بے نقاب کرنے والے شہید مشال خان کی شہادت نے طلباء کی جامد آواز کو ایک بابانگ دہل آواز بنا دیا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں انتہاء پسندانہ تنظیم اور انتظامیہ کے ظلم نے چار دہایئوں بعد طلباء میں بغاوت پیدا کردی ہے۔ وہ جامعہ جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ کبھی اس اتنہا پسند تنظیم کے چنگل سے آزاد نہیں ہوسکتی، وہاں ہزاروں طلباء کے اتحاد نے انہیں تاریخی شکست دی۔ قائداعظم یونیورسٹی میں طلباء اپنے ہاسٹل کی خاطر میدان عمل میں آچکے۔ بحریہ یونیورسٹی ، جامشورو میڈیکل کالج اور بلوچستان یونیورسٹی میں جنسی حراسانی کیخلاف طلباء وطالبات شانہ بشانہ کھڑے ہو ئے۔ حیدر آباد میں طلباء نے یونین سازی کی بحالی کیلئے ایک بہت بڑا مارچ کیا۔
خیبر سے کشمیر تک طلباء کی انفرادی زبان نے ایک اجتماعی زبان کی شکل اختیار کر لی ہے جو یقینا ایک بہت بڑی اور حقیقی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
سیاست کوئی فتنہ نہیں بلکہ عبادت ہے چند فتنہ سازوں نے اس عبادت کو نجاست بنایا۔ اپنے حقوق کی جنگ کیلئے وکلاء، تاجر، ڈاکٹرز، انجینئرز، حتی کہ اساتذہ اکھٹے ہو سکتے ہیں تو ملک کا حقیقی مستقبل قرار دیے جانے والے طلباء کو متحد ہونے سے کیوں روکا جاتا ہے۔ ریاست کی تمام پالیسیاں براہ راست طلباء پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ انکو تعلیم اور روزگار فراہم کرنا ریاست کا بنیادی فرض ہے۔ اگر وہ اس حق کیلئے آواز بلند کرتے ہیں تو اس آواز کو بغاوت کا نام دے کر کچلا نہیں جا سکتا ہے۔ ان کے اندر پایا جانے والا جوش، جذبہ، عزم ، ہمت۔ حوصلہ اور ولولہ معاشرے کی تمام اکائیوں سے زیادہ ہے۔
اگر سیاست اتنا ہی برا کھیل ہے تو سیاسی لیڈران اپنے بچوں کو اس کھیل میں کیوں اتارتے ہیں؟
وہ والدین جو طلباء سیاست کی مخالفت کرتے ہیں انہیں سمجھنا ہو گا کہ انکے بچوں کیلئے یہ سیاست ایک بہتر مستقبل کی ضامن ہے۔
طلباء کی اپنے حقوق کی اس جنگ میں والدین کا کردار بہت اہم ہے۔ انہیں اس تحریک میں طلباء کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ بچوں کی فیسوں کی ادائیگی سے لیکر انکی نوکری تک کی تمام تر پریشانیاں براہ راست والدین سے جڑی ہیں۔ اگر وہ اس تحریک میں اپنے بچوں کا ساتھ دے دیں تو وہ نا صرف انکے بچوں بلکہ ان کیلئے بھی تسکین کا ضامن ہوگا۔
طلباء کو بھی اپنے تمام تر نظریاتی اختلافات بھلا کر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ اتحاد ملک میں انقلاب برپا کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔ ملک کی تمام طلباء تنظیموں کو طلباء یونین کی بحالی کیلئے ایک ملک گیر تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ یہ تحریک ملک کے موجودہ نظام کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس کے اثرات ملک میں چلنے والی تمام تحریکوں پر پڑیں گے۔ لاہور میں بائیں بازو کی ایک متحرک، پرجوش اور سر گرم تنظیم پروگریسو سٹوڈنٹس کلیکٹواس دفعہ اس تحریک کو ملک گیر تحریک بنانے کیلئے کوشاں ہے جسکا مقصد طلباء یونین کی بحالی کیلئے یک آواز ہو کر سڑکوں پر نکلنا ہے۔ کیونکہ لینن نے کہا تھا کہ
”جب حکومت عوام کا اعتماد کھو دے تو ہاتھوں سے ووٹ ڈالنے کی بجائے سڑکوں پر نکل کر اپنے پاؤں سے ووٹ ڈالنا بہترین حکمت عملی ہے“.