لاہورہائیکورٹ نے جناح ہاؤس اور عسکری ٹاور حملہ مقدمات میں ضمانت کے بعد ایک اور مقدمہ میں خدیجہ شاہ کی گرفتاری پر قرار دیا کہ اگر پولیس نے خاتون کو رہا نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو قانون اپنا راستہ بنائے گا۔ عدالت کیسز میں پیش رفت کو دیکھ رہی ہے امید ہے سی سی پی خدیجہ شاہ کیساتھ کچھ انصاف کریں گے۔ عدالت نے توہین عدالت درخواست پر سی سی پی او لاہور کو کل جواب جمع کروانے کا حکم دے دیا۔
مشہور فیشن ڈیزائنر خدیجہ شاہ نے عدالتی ضمانت کے باوجود رہائی نہ ملنے پر آئی جی پنجاب اور دیگر پولیس افسران کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ کےجسٹس علی باقر نجفی نے خدیجہ شاہ کی طرف سے دائر توہین عدالت کی درخواست پر ایک ہی روز میں 3 بار سماعت کی۔
عدالت نے پہلی سماعت کے دوران خدیجہ شاہ کی گرفتاری کی بابت رپورٹ طلب کی جبکہ دوسری سماعت میں عدالت کو بتایا گیا کہ ملزمہ کو انسداددہشتگردی عدالت میں جسمانی ریمانڈ کیلئے پیش کیا گیا۔ تیسری بار سماعت پر سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ اور جے آئی سربراہ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن عمران کشور کے ساتھ پیش ہوئے تو عدالت ریمارکس دیئے کہ آپ نے رپورٹ پیش کی تھی کہ خدیجہ شاہ کے خلاف 2 کیسز ہیں۔ عدالت کو پتہ ہے کیا ہو رہا ہے۔ مگر اب کیوں خاتون گرفتار کیا گیا؟ جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو پتہ ہے کہ وہ کیا کیا کر سکتی ہے مگر عدالت اس میں نہیں جانا چاہتی۔
سی سی پی او لاہور نے عدالت کو بتایا کہ 10 اکتوبر کو تین ملزم گرفتار کئے گئے اور شریک ملزموں کے انکشافات پر 18 اکتوبر کو خدیجہ شاہ کو گرفتار کیا گیا۔جب خدیجہ شاہ کے خلاف درج مقدمات کی رپورٹ عدالت میں پیش کی تھی اس وقت صرف 2 کیسز درج تھے مگر اب 3 ملزموں کی گرفتاری سے پیش رفت ہوئی ہے۔
تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ عبداللہ نامی شخص جو خدیجہ شاہ کا خانساماں ہے، اس نے انکشاف کیا کہ خدیجہ شاہ کے گھر میں بھی پارٹی کی میٹنگ ہوتی رہی ہے اور خانساماں عبداللہ کے بیان پر خدیجہ شاہ کو گرفتار کیا گیا۔
تفتیشی افسر نے کہا کہ خانساماں کے بیان میں انکشاف ہوا ہے کہ خدیجہ شاہ کو چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری پر مزاحمت کرنے اور لاٹھی اور چھڑیاں اکٹھی کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ میں اندازوں پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ کل صبح خدیجہ شاہ کے خلاف کیسز کی بابت تمام رپورٹ پیش کر دوں گا۔
جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ اگر درخواستگزار کو دوبارہ گرفتار ہی کرنا تھا تو اس وقت کیا ضرورت تھی پولیس افسر کو عدالت میں بیان دینے کی؟ کیسز میں نئے ملزموں کی گرفتاری جیسی پیش رفت تو کافی عرصہ تک چل سکتی ہے مگر اس طرح کی پیش رفت کہیں تو رکنی چاہیے۔عدالت نے سی سی پی او کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ توہین عدالت کی درخواست پر کل جواب جمع کروائیں۔
درخواستگزار کے وکیل سمیر کھوسہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جناح ہاؤس اور عسکری ٹاور حملہ کیس میں ضمانتی مچلکے جمع کروا دیے گئے، مگر یہ علم نہیں کہ انہیں جناح ہاؤس اور عسکری ٹاور حملہ کیس میں رہا کر دیا گیا یا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مقدمات کی تفصیلات فراہمی کیس میں پولیس نے بیان دیا تھا کہ خدیجہ شاہ 2 مقدمات کے علاوہ کسی اور مقدمہ میں نامزد نہیں مگر پولیس نے بدنیتی کی بنیاد پر بیان عدالت میں جمع کروایا اور آج نئے مقدمہ میں گرفتار کر لیا۔ سمیر کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ وقوعہ کے 6 ماہ بعد خدیجہ شاہ کو تیسرے مقدمہ میں عین اس وقت گرفتار کیا گیا جب ہائیکورٹ سے 2 مقدمات میں ضمانت منظور ہوئی۔ وکیل درخواست گزار کے وکیل نے مزید دلائل دیے کہ خدیجہ شاہ سوشل میڈیا انفلوانسر نہیں بلکہ عام شہری ہیں لہذا خدیجہ شاہ اور تفتیشی افسر کو عدالت طلب کیا جائے اور درخواستگزار کو رہا کرنے کا حکم دیا جائے۔
عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اگر انسداد دہشتگردی عدالت سے خدیجہ شاہ کا جسمانی ریمانڈ دے دیا گیا چاہے وہ ریمانڈ درست ہو یا بلاجواز درخواستگزار اسے ہائیکورٹ میں چیلنج کر سکتی ہے۔ پھر عدالت دیکھے گی کہ عدالت کیا کر سکتی ہے۔ عدالت نے ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کیسز تحقیقات میں پیش رفت کو دیکھ رہی ہے اور یہ توقع کی جاتی ہے کہ سی سی پی او لاہور بھی کچھ انصاف کریں۔
لاہور ہائیکورٹ نے آئی جی پنجاب, سی سی پی او لاہور سمیت دیگر فریقین سے جواب طلب کرتے ہوئے کارروائی کل تک ملتوی کر دی۔
دوسری جانب لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت لاہور نے پی ٹی آئی کی کارکن خدیجہ شاہ کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت لاہور میں راحت بیکری کے باہر جلاؤ گھیراؤ کے مقدمے کی سماعت ہوئی۔ جج عبہر گل نے پولیس کی درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے پولیس کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے خدیجہ شاہ کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔