پاکستان میں غیر مسلم اقلیتیں خوفزدہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں

چیئرمین پاکستان ہندو کونسل ڈاکٹر رمیش کمار کہتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیت کے بجائے مسلم و غیر مسلم کا لفظ استعمال ہونا چاہئیے، توہین رسالت کا قانون ہونا چاہئیے مگر اس کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہئیے۔ انہوں نے تجویز دی کہ اگر کسی جگہ توہین مقدسات جیسا واقعہ ہوتا ہے تو اسے وائرل کرنے کے بجائے متعلقہ ادارے کو اطلاع دی جائے۔

05:57 PM, 23 Oct, 2023

آصف محمود

پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملوں سے جہاں دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے، وہیں سوشل میڈیا پر ایسے واقعات کی آڑ میں اس قدر فیک اور غلط معلومات شیئر کی جاتی ہیں جن سے نوجوان نسل متاثر ہو رہی ہے۔ خاص طور پر اقلیتی کمیونٹیز سے تعلق رکھنے والی نوجوان نسل ڈر اور خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

سانحہ جڑانوالہ رونما ہوئے ڈیڑھ ماہ سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے لیکن مسیحی برادری ابھی تک ڈر اور خوف کے سائے سے نہیں نکل سکی۔ لاہور جیسے بڑے شہر میں مقیم مذہبی اقلیتیں خاص طور پر مسیحی برادری بھی کافی ڈری اور سہمی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ 18 سالہ عندلیب گل لاہور کے مقامی کالج میں سیکنڈ ایئر کی طالبہ ہیں۔ عندلیب گل نے بتایا کہ جڑانوالہ کے واقعہ نے ایک بار پھر ان کے لئے مشکلات بڑھا دی ہیں۔ اس واقعہ کے بعد وہ کئی روز تک کالج نہیں جا سکی تھیں کیونکہ ان کی فیملی کو خدشہ تھا کہ کہیں کالج میں مسلم طالبات ان کے ساتھ کوئی غلط رویہ اختیارنہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ ان سمیت کئی مسیحی طالبات نے کالج جانا چھوڑ دیا تھا۔ ہمیں ڈر محسوس ہوتا تھا کہ کہیں ہمارے ساتھ کچھ غلط نہ ہو جائے۔ عندلیب گل کہتی ہیں خداوند کا شکر ہے کہ ان کے خدشات غلط ثابت ہوئے اور خود ان کی مسلم طالبات نے فون کر کے سانحہ جڑانوالہ کے حوالے سے ان کے ساتھ اظہارافسوس کیا اور ان کا حوصلہ بڑھایا کہ وہ کالج آئیں۔ وہ یعنی مسلم طالبات ان کے ساتھ ہیں۔

لاہور کے سرکاری ہسپتال میں بطور سٹاف نرس خدمات سرانجام دینے والی جینیفر اقبال کہتی ہیں کبھی کوئی ایسا سانحہ رونما ہوتا ہے تو وہ محتاط ہو جاتی ہیں۔ وہ ہسپتال میں کسی ساتھی سٹاف، انتظامیہ حتی کہ کسی مریض سے مذہب کے معاملے اور خاص طور پر جڑانوالہ جیسے سانحہ پر بات کرنے سے گریز کرتی ہیں۔

جینیفر نے بتایا کہ دل میں ایک ڈر اورخوف بیٹھ گیا ہے کہ بات کرتے ہوئے ناجانے کون سے ایسے الفاظ منہ سے نکل جائیں جن کو توہین مذہب کا نام دے دیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک سرکاری ہسپتال میں سٹاف نرس پر مقدس اوراق کی بے حرمتی کا الزام کا واقعہ پیش آ چکا ہے۔

کیتھڈرل چرچ لاہور کے پاسٹر ریاض ملک کہتے ہیں وہ ہمیشہ اپنی کمیونٹی کے بچوں اور نوجوانوں کو کہتے ہیں کہ کسی کے ساتھ بھی مذہبی موضوع پر بحث نہ کریں اور دوسروں کے مقدسات کا احترام کریں۔ بچوں کو تلقین کی جاتی ہے کہ سکول میں کبھی بھی نوٹ بک پر کسی دوسرے کے کہنے پر کچھ تحریر نہ کریں۔ انہوں نے کہا جب تک ایسے عناصر کو خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے کیوں نہ ہو، سخت سزائیں نہیں دی جائیں گی ایسے واقعات کو روکنا نا ممکن ہے۔ اس کے علاوہ مسیحی اکابرین خاص طور پر بشپ اور پادری صاحبان کو چاہئیے کہ وہ جہاں دیگر مسلم علما کرام کے ساتھ بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو وہیں اس جماعت اور گروہ سے بھی ڈائیلاگ کیے جائیں جو یہ کام کرتے ہیں تا کہ ان کے خدشات کو دور کیا جا سکے۔

یوتھ کونسل فار انٹرفیتھ پیس اینڈ ہارمنی کی کوآرڈینیٹر سائرہ بٹ کہتی ہیں کہ پاکستان میں جب بھی مذہب کے نام پر ایسی صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے تو لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔ ملک میں امن اور سلامتی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئیے، ہمارے خیالات مجروح ہوں تو ہم پر امن احتجاج کر سکتے ہیں۔ ہمیں اس ملک میں متحد ہو کر رہنا چاہئیے اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہئیے۔

سائرہ بٹ نے کہا بدقسمتی سے جب سوشل میڈیا پر ایسے واقعات بارے ویڈیوز اورپوسٹیں شیئر ہوتی ہیں تو پھراس آڑ میں فیک نیوز اور تبدیل شدہ حقائق بھی پھیلائے جاتے ہیں جس سے مختلف مذاہب کے افراد میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت بڑھتی ہیں۔

سکھ کمیونٹی کے نمائندے سردار ہربجن سنگھ کا کہنا ہے جڑانوالہ واقعہ کی تحقیق کیے بغیر اتنا بڑا وبال مچایا گیا، اس طرح کے واقعات دیکھنے سے ہم خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ لوگوں کوآگاہی ہونی چاہئیے تا کہ وہ اس خوف سے زندگی نہ گزاریں، صرف قصور وار کو سزا ملنی چاہئیے۔

اسی طرح ہندو برادری کے رتن لال چوہان نے کہا جڑانوالہ واقعہ ہمارے دل میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا نتیجہ ہے۔ ایسے انتشار کو روکنے کے لئے کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ بظاہر یہ کہا جاتا ہے کہ اقلیتیوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں مگرعملی طور پر ایسا نظر نہیں آتا۔

کلینیکل سائیکالوجسٹ فاطمہ طاہر سمجھتی ہیں کہ نوجوان جب سوشل میڈیا پر مذہب کے نام پر ہونے والے سانحات کو دیکھتے ہیں، ایک دوسرے کو واجب القتل اور کافر قرار دیے جانے کے فتوے سنتے ہیں، مذہبی جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے تو نوجوانوں پر اس کے انتہائی منفی اثرات پڑتے ہیں۔ غیر مسلم بچے جب اپنی کمیونٹی کے خلاف ایسے واقعات دیکھتے ہیں تو ان کے دل میں ایک ڈر اور خوف بیٹھ جاتا ہے جس سے ان کی شخصیت متاثر ہوتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جب کسی کمیونٹی کے ساتھ بار بار ایسے واقعات ہوتے ہیں تو پھر اس کمیونٹی کے نوجوانوں کے اندر نفرت اور غصہ جنم لیتا ہے جو انہیں غلط راستے پر لے جاتا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکن اور سینیئر وکیل عبداللہ ملک نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتی برادری کے دلوں سے اس وقت تک خوف کو ختم نہیں کیا جا سکتا جب تک سانحہ جڑانوالہ جیسے واقعات کی روک تھام کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہونے والے ایسے واقعات میں اگر ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جاتی تو شاید سانحہ جڑانوالہ رونما نہ ہوتا۔

عبداللہ ملک نے بتایا کہ اگست 2009 میں تحصیل گوجرہ میں قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی کے الزام میں چار عورتوں، ایک مرد اور دو بچوں سمیت 6 افراد کو زندہ جلا دیا گیا لیکن اس واقعہ کے مرتکب کسی بھی ملزم کو سزا نہیں ہو سکی۔ مارچ 2013 میں لاہور کے علاقے بادامی باغ کی جوزف کالونی میں قرآن پاک کی بے حرمتی کی افواہ پر ہزاروں مشتعل افراد نے مسیحی بستی کا محاصرہ کیا۔ سینکڑوں گھر، تین چرچ اور متعدد دکانیں نذرِ آتش کر دی گئیں لیکن ملزمان نامعلوم ہی رہے۔ دسمبر 2021 میں سیالکوٹ میں ایک فیکٹری کے سری لنکن مینجر پریانتھا کمارا کو دردناک انداز میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ تاہم یہ واحد واقعہ تھا جس کے بعد قانون حرکت میں آیا۔ 18 اپریل 2022 کو نامزد 88 ملزمان کو سزا سنائی گئی۔ مذکورہ بالا تینوں واقعات میں نہ تو توہین قرآن کا کوئی ثبوت ملا، نا ہی جھوٹا الزام لگانے والوں کو قرار واقعی سزا دی گئی۔

چیئرمین پاکستان ہندو کونسل ڈاکٹر رمیش کمار کہتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیت کے بجائے مسلم و غیر مسلم کا لفظ استعمال ہونا چاہئیے، توہین رسالت کا قانون ہونا چاہئیے مگر اس کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہئیے۔ انہوں نے تجویز دی کہ اگر کسی جگہ توہین مقدسات جیسا واقعہ ہوتا ہے تو اسے وائرل کرنے کے بجائے متعلقہ ادارے کو اطلاع دی جائے، اگر پولیس کی جانب سے لیت و لعل سے کام لیا جائے تو علاقے کے معتمد اور با رسوخ افراد کو اعتماد میں لے کر اندراج مقدمہ کی کوشش کی جائے۔ مبینہ ملزم کی گرفتاری تک اس کی شناخت عوامی سطح پر ہرگز ظاہر نہ کی جائے۔ مساجد کی کمیٹیوں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہاں سے اشتعال انگیز اعلانات نہ ہونے پائیں۔ سب سے اہم اور ضروری بات کہ جو بھی توہین میں ملوث پایا جائے اسے بغیر کسی اندرونی یا بیرونی دباؤ کے قرار واقعی سزا دی جائے۔

مزیدخبریں