اُسے ہر فلم میں ہی مار پڑتی۔ شکل بھی کچھ خاص نہیں تھی۔ 10 دس، پندرہ 15 سیکنڈز کے رولز ملتے۔ ظاہر ہے سینز بھی 2 یا 3 ہی ہوتے۔ کسی مووی میں اسے آدھا ننگا کر کے پِیٹا جاتا تو کسی میں وہ جیب کترا بنتا۔ بہت تِیر مارتا تو چڈی بیچنے والا یا پھر ویٹر بن جاتا۔ اس کے گاؤں والے اس سے یہی شکایت کرتے کہ تو ہر فلم میں پِٹ کر آتا ہے۔ ماں کہتی ہر بار چور، اُچکا، لنگڑا کیوں بن جاتا ہے؟ ماں صدقے جائے، ہر مووی میں مر کیوں جاتا ہے؟ رہا باپ، تو وہ تو شدید غصہ کرتا۔ کہتا، تو اپنی بے عزتی تو کروا ہی رہا ہے ساتھ ہی ساتھ میری بھی۔ پورا گاؤں مجھ پہ ہنستا ہے، صرف تیری وجہ سے۔ حد تو یہ ہے کہ کیا اپنا، کیا پرایا، ہر شخص ہی اس پر تنقید کرتا اور وہ بھی بری طرح، بے رحمی سے۔ مگر وہ سب کی تنقید ایک کان سے سنتا اور دوسرے سے نکال باہر کرتا۔
کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن یہ شخص لِیڈ ایکٹر بنے گا۔ اور تو اور خود اسے معلوم ہو چکا تھا کہ وہ عام سی شکل و صورت کا بندہ ہے، سپر سٹار نہیں بن سکتا۔ اسے تو ایکٹر بننا ہے ایکٹر۔ اور ایسا ایکٹر کہ جس کی مثالیں دنیا دے۔ اور پھر وہ وقت آیا کہ صرف ایک فلم نے اس کی زندگی، کریئر، مالی حالات اور شاید شکل و صورت اور حلیہ بھی بدل ڈالا۔ اور یہ مووی تھی گینگز آف واسع پور اور وہ ایکٹر ہے نواز الدین صدیقی۔
گینگز آف واسع پور پارٹ ون اور ٹو میں اس نے بتلایا کہ نواز الدین صدیقی کس بلا کا نام ہے؟ اس نے اپنے آپ کو مہان اور منجھے ہوئے ایکٹر کے طور پر منوایا۔ ناقد اس کے فین ہو گئے۔ ماں باپ کہنے لگے اب آیا نا مزہ۔ رہے گاؤں والے تو وہ تو خوشی سے پاگل ہی ہو گئے۔ آخر نواز الدین صدیقی کی کامیابی انہی کی کامیابی تو تھی۔
خیر نواز الدین صدیقی کا گینگز آف واسع پور تک کا سفر آسان نہیں تھا۔ غریب نہ ہونے کے باوجود انہوں نے غربت کاٹی۔ 2 سال تو بنا پیسے کے ہی رہے۔ وہ ایسے کہ نواز بھائی گھر والوں کو بتلائے بِنا اپنی مرضی کا کام کر رہے تھے۔ گھر والے پیسے دیتے تو یہ لینے سے صاف انکار کر دیتے۔ گزارا کرنے کے لیے چوکیداری بھی کی۔ حالانکہ نواز الدین صدیقی اپنے خاندان کے پہلے گریجویٹ ہیں اور وہ بھی سائنس گریجویٹ۔ ایک پیٹروکیمیکل کمپنی میں کیمسٹ کی جاب بھی کی لیکن جلد ہی اسے لات دے ماری۔ اصل میں ایکٹنگ کے کیڑے نے ان سے بہت کچھ کروایا۔
2 برس لکھنؤ میں ایکٹنگ کی تعلیم اور ٹریننگ لی تو 3 برس نئی دلی کے نیشنل سکول آف ڈراما میں۔ اس کے بعد آ گئے ممبئی۔ 8، 10 دوست ایک ساتھ ایک ہی کمرے میں رہنے لگے۔ مگر نواز بھائی نے کبھی بڑے سپنے نہیں دیکھے تھے۔ یہ تو بس سروائیو کرنے آئے تھے، آگے بڑھنے نہیں۔ تھیٹر کیا، ٹی وی کیا، فلموں میں قسمت آزمائی۔ جو چھوٹا موٹا رول مل جاتا، کر لیتے۔ ٹارگٹ صرف ایک تھا، بس دو وقت کی روٹی۔ اسی لیے تو انہیں Struggle میں بھی مزہ آنے لگا۔
ایکٹنگ کے ساتھ ساتھ ادھار مانگنے کا فن بھی جانتے تھے۔ ایک کا ادھار دوسرے سے ادھار لے کر چُکا دیا کرتے۔ پھر نشے کی لت پڑ گئی۔ جب مزہ آنے لگا تو یہ بری عادت آسانی سے چھوڑ دی۔ کیونکہ نواز الدین صدیقی کو سوائے ایکٹنگ کے جس کام میں مزہ آتا ہے، وہ یہ چھوڑ دیتے ہیں، اس کے غلام نہیں بنتے۔ ہاں مگر بھنگ سے دوستی رہی۔ بھنگ پیتے اور خود کو دنیا کا سب سے بڑا ایکٹر سمجھ کر بسوں، رکشوں، چوک چوراہوں میں صبح سے شام تک پرفارم کرتے رہتے۔ نشہ اترتا تو دوستوں یاروں سے پاگل ہونے کے طعنے سنتے۔
خیر واپس آتے ہیں نواز بھائی کی فلموں کی طرف۔ ایسا بالکل بھی نہیں کہ نواز بھائی نے گینگز آف واسع پور سے پہلے جاندار رولز نہیں کیے تھے۔ 2004 میں ریلیز ہونے والی ڈائریکٹر انوراگ کشپ کی فلم بلیک فرائیڈے سے انہیں مضبوط کردار ملنا شروع ہو گئے تھے۔ اسی فلم میں نواز الدین صدیقی کا اصل ٹیلنٹ انوراگ جی نے بھانپ لیا تھا۔ اور صرف انوراگ جی نے نہیں، اور بہت سوں نے بھی۔ مگر نواز بھائی کو پہلا لِیڈ رول ملا 2011 کی مووی پتنگ میں۔ اس فلم کا پریمیئر ہوا تھا برلن فلم فیسٹول میں۔ اور وہاں نواز الدین صدیقی کی ایکٹنگ دیکھ کر دنیا کے عظیم فلمی نقاد Roger Ebert نے ان کی تعریفوں کے پُل باندھ دیے تھے۔ اور پھر اس کے بعد انوراگ کشپ نے نواز الدین صدیقی کو گینگز آف واسع پور آفر کر دی۔
اس آفر کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ نواز بھائی اپنے گاؤں میں موج مستیاں کر رہے تھے کہ انوراگ کشپ نے انہیں فون کر کے کہا کہ تمہیں ایسا کریکٹر دے رہا ہوں جو تمہاری ٹائپ کا ہے اور جسے تم ہمیشہ سے کرنا چاہتے ہو۔ اور پھر 5 صفحوں کا سکرپٹ بھیج دیا۔ پہلی چند لائنز پڑھ کے ہی نواز بھائی چلا اٹھے، او باپ رے! یہ کردار تو میں ضرور کروں گا۔ یہی تو میں چاہتا تھا۔ مگر انوراگ جی کو تو میں نے کبھی ایسا کچھ نہیں بتلایا تو پھر انہیں کیسے پتہ چل گیا؟
خیر، نواز الدین صدیقی نے گینگز آف واسع پور پارٹ ون اور ٹو کی اور ایسی شاندار پرفارمنس دی کہ جہاں ایکٹنگ کی بات ہوتی، نواز الدین صدیقی کا نام لیا جانے لگا۔ اصل میں نواز بھائی ایکٹر ہیں۔ بہت سے لوگ سپر اسٹار تو ہوتے ہیں پر ایکٹر نہیں۔ نواز بھائی نے کمرے میں 16 سولہ گھنٹے اپنی ایکٹنگ پر کام کیا ہے۔ وہ ورسٹائل فنکار ہیں جنہوں نے ہر طرح کے رولز نبھائے ہیں۔ ہڈی میں ٹرانس جینڈر کا رول ہو یا پھر بے تحاشہ ڈارک رولز۔ پولیس والے کا کردار یا کوئی انتہائی آرٹسٹک رول۔ منٹو، کیا کوئی بھول سکتا ہے منٹو مووی میں نواز الدین صدیقی کی لاجواب ایکٹنگ کو؟ بھلے فلم میں ہی سہی، منٹو بننا کہاں آسان ہے بھلا؟ مگر نواز صاحب نے یہ ثابت کر کے دکھلایا کہ ان سے اچھا منٹو کوئی نہیں بن سکتا۔ اور دلچسپ بات یہ کہ اس فلم میں کام کرنے کا معاوضہ نہیں لیا تھا نواز بھائی نے۔ مطلب مفت میں منٹو بن گئے تھے۔
ویسے لوگ عرفان خان اور نواز بھائی میں مماثلت تو ڈھونڈتے ہیں پر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ نواز بھائی عرفان خان کو ریہرسل کروایا کرتے تھے۔ اور تو اور عرفان خان نے ایک فلم ڈائریکٹ کی تھی الوداع۔ اس فلم میں انہوں نے نواز بھائی کو ہیرو لیا تھا۔
چلیں اب آتے ہیں نواز الدین صدیقی کی پرسنل لائف اور پسند نا پسند کی طرف۔ نواز بھائی یُوپی کے ضلع مظفر نگر کی تحصیل بُدھانا میں 19 مئی 1974 کو پیدا ہوئے تھے۔ شادی کی، دو بچے بھی ہیں پر بیوی سے کھٹ پٹ چلتی رہتی ہے۔ بات طلاق تک بھی گئی۔ مگر سنا ہے آج کل تعلقات ٹھیک ہیں۔ نواز الدین صدیقی الگ رہتے ہیں۔ انہیں تنہائی پسند ہے، لطف لیتے ہیں تنہائی کا۔ میڈیا سے ڈرتے ہیں کہ بات کا بتنگڑ بنانے میں میڈیا کا کوئی ثانی نہیں۔ آرٹسٹک سنیما کے دلدادہ ہیں۔ بس یہی ایک خواہش ہے کہ کسی کمال کی آرٹ مووی میں اپنے فن کے جوہر دکھائیں۔ فلموں سے کما کر کم بجٹ کی آرٹ موویز بناتے رہتے ہیں۔ فلم آرٹسٹک ہو تو کم پیسوں اور مفت میں بھی کام کر لیتے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ ابھی تو انہوں نے کچھ بھی کام نہیں کیا۔ وہ کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں کہ جسے ہمیشہ ہمیشہ یاد رکھا جائے۔ مگر ایک دنیا کا ماننا ہے کہ نواز الدین صدیقی کے اب تلک کے کام کو بھی کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا۔ زی 5 پر نواز بھائی کی نئی مووی راوُتُو کا راز چند روز پہلے ہی ریلیز ہوئی ہے۔
اور اب بات ایوارڈز کی۔ نواز الدین صدیقی نے اسپیشل جیوری ایوارڈ، آئیفا ایوارڈ، نیشنل فلم ایوارڈز اور فلم فیئر او ٹی ٹی ایوارڈز سمیت کئی ایک ایوارڈز اپنے نام کیے ہیں۔ مگر شاید ہی دنیا کا کوئی ایوارڈ ہو جسے نواز بھائی کی اداکاری کے ہم پلہ کہا جا سکے۔