ہر عدالت ہر مقدمے، جس میں میاں نواز شریف کو گھسیٹا گیا ان کی بیٹی کو ان کے ساتھ شریکِ جرم ٹھرایا گیا۔ شاید یہ سوچ کر کہ نواز شریف اپنی تو جان بھی نظریات پر قربان کر دے مگر اپنی بیٹی پر ہونے والی سختیوں سے ڈر کر جھک جائے۔ مگر وہ بیٹی جس پر وار کر کے نواز شریف کو ہرانے کا منصوبہ تھا وہ نواز شریف کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔ ان دو سالوں کی جدوجہد صرف ایک بیٹی کی باپ کی خاطر کی جانے والی جدوجہد نہیں بلکہ ایک سسکتی، لڑکھڑاتی اور گرتی جمہوریت کو دوام بخشنے کی ایک کامیاب کوشش بھی تھی۔
اس آزمائش کا سب سے تلخ باب نواز شریف کی شریکِ حیات بیگم کلثوم نواز کی بیماری ہے۔ میاں نواز شریف کو نااہل کیا جاتا ہے اور وزارتِ اعظمیٰ کے منصب سے الگ کیا جاتا ہے، فیصلہ ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف کی خالی نشست پر ان کی اہلیہ اور پاکستان کی تین بار خاتونِ اول رہنے والی کلثوم نواز الیکشن لڑیں گی۔ الیکشن مہم شروع ہونے سے پہلے ایک معمول کے چیک اَپ میں کینسر کی تشخیص ہوئی، جس کا فوری طور پر برطانیہ میں علاج شروع کروا دیا گیا۔ ایسے موسم میں جب طوفان کی ہر ہوا مخالف تھی اور میاں نواز شریف کو بھی اپنی اہلیہ کے پاس لندن جانا پڑا، تو اس کٹھن اور تاریخ ساز الیکشن مہم چلانے کی ذمہ داری مریم نواز نے اپنے کندھوں پر لی۔ جن حالات کا مقابلہ کر کے وہ الیکشن مریم نواز نے اپنی والدہ کے نام کیا ان کو عوام بخوبی جانتی ہے۔
منظر تبدیل ہوتا ہے اور جن عدالتوں میں اب ضمانت کی اپیل چھ چھ ماہ تک نہیں سنی جاتی وہ روزانہ کی بنیاد پر احتساب کے نام پر انتقام کے کٹہرے سجاتے ہیں۔ شاید چند ماہ میں ہونے والے عام انتخابات سے پہلے نواز شریف اور مریم نواز کے ساتھ انصاف کرنا ضروری تھا۔ روزانہ ہونے والی ان پیشیوں کے لئے ہر روز یہ باپ بیٹی فجر کی نماز ادا کر کے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوتے تھے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جس طرح یہ مقدمات قائم ہوئے ہیں ان کو انصاف ملنا نا ممکن تھا۔ مگر شاید جمہوریت کو کسی ایسے عزم اور حوصلے کی ضرورت تھی۔ انہی پیشیوں کے دوران خبر آتی ہے کہ لندن میں زیرِ علاج کلثوم نواز کی حالت تشویشناک ہے۔ عدالت سے درخواست کی جاتی ہے کہ روزانہ ہونے والا یہ انصاف چند دنوں کے لئے موخر کر دیا جائے مگر جواب میں تضحیک، تمسخر کے ساتھ یہ اپیل ہوا میں اڑا دی جاتی ہے اور ایک شوہر کو اپنی بیوی اور ایک بیٹی کو اپنی ماں کی تیمارداری کی اجازت نہیں ملتی۔ یہ دونوں عید کی تعطیلات میں برطانیہ روانہ ہوتے ہیں مگر شاید بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے کیونکہ میاں نواز شریف کے اپنی بیٹی کے ساتھ لندن پہنچنے سے پہلے کلثوم نواز کارڈیک اریسٹ کے نتیجے میں قومہ میں چلی جاتی ہیں۔ بیگم کلثوم نواز آنکھیں نہیں کھولتی اور ان کے سرہانے کھڑے میاں نواز شریف اور مریم نواز کو گرفتاری کا پروانہ مل جاتا ہے۔ فیصلے کے وقت کا تعین ایسے موقع پر کیا جاتا ہے کہ شائد ایک شوہر اپنی شریکِ حیات کو بسترِ مرگ پر چھوڑ کے نہ آئے اور ایک بیٹی اپنی ماں کو چھوڑ کر جیل جانے کا حوصلہ نہ کر سکے۔ ایسے میں وہی ہو جائے جس کی امید پر یہ سارا کھیل کھیلا گیا تھا۔ میاں نواز شریف اور مریم نواز کو ملک بدری میں دیکھنے کا خواب اس وقت ٹوٹتا دکھائی دیتا ہے جب مریم نواز ہسپتال کے باہر کھڑی ہو کر صاف الفاظ میں کہ دیتی ہیں کہ ہم ذاتی ذمہ داریوں کو قومی ذمہ داریوں پر قربان کر دیں گے۔ اور چند روز بعد میاں نواز شریف وطن واپسی کا اعلان کرتے ہیں۔
13 جولائی کی وہ شام پاکستان میں جمہوریت ایک نیا باب لکھتی ہے جب ایک بیٹی نظریے کی خاطر اپنے والد کے ساتھ جیل جانے ملک واپس آتی ہے۔ سزا کاٹنے بیرونِ ملک سے پاکستان آنے والے باپ بیٹی شائد ان کو سبق دے رہے تھے جو سزا سے بھاگنے کے لئے بیرونِ ملک کا رخ کرتے ہیں شائد یہی فرق ہوتا ہے، آئین توڑنے والوں اور آئین کے رکھوالوں میں۔ ظلم کے خلاف اس خاموش احتجاج کی گونج ناانصافی کے ایوانوں کو لرزاتی رہے گی۔ زندانوں سے ڈرانے کی کوششیں آج بھی جاری ہیں۔ آج بھی میاں نواز شریف کوٹ لکھپت جیل میں جرمِ جمہوریت کی سزا کاٹ رہے ہیں اور آج بھی مریم نواز نیب کی حراست میں آپ سیاست چھوڑ کیوں نہیں دیتی؟ کا جواب دے رہی ہیں۔ آج بھی حکومت کا مدعا وہی ہے کسی طرح یہ باپ بیٹی جلا وطنی کی زندگی اختیار کریں، اپنی جان چھڑوا لیں ہماری جان چھوڑ دیں۔ مگر یہ باپ بیٹی وطن سے دور کسی محل پر اپنی مٹی پر قائم قید خانے کو ترجیح دیے ہوئے ہیں۔ آج بھی سیاست کے تمام ستارے ان بہادر باپ بیٹی کے گرد گھومتے ہیں۔ آج بھی آزادی کی قیمت نظریے کی قربانی ہے جو اس بہادر باپ بیٹی کو قبول نہیں۔
تاریخ گواہ ہے کے اصولوں پر قائم قیدی اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ظالم حکمرانوں سے جیت جاتے ہیں اور یہ بازی بھی بہادر باپ اور بہادر بیٹی کے نام رہے گی۔ انشااللہ۔