https://www.youtube.com/watch?v=-JCOCWPAB2Q&t=15s
شہبازشریف مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہونے کے باوجود نہ مسلم لیگ ن کے صدر کے طور پر کھل کر چل پا رہے ہیں اور نہ بطور اپوزیشن لیڈر بات بن رہی ہے ۔ بڑے بھائی کا سایہ دم مارنے نہیں دیتا ہے ۔ نوازشریف تو نوازشریف ہیں ۔ مریم نواز کا پرتومت مار دیتا ہے ۔ شہباز شریف کی سیاست کےلئے مریم نواز بیٹی ہونے کے باوجود سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ مسلم لیگی حلقے اور کارکنان نواز شریف کے بعد صرف مریم نواز کے حلقہ اثر میں ہیں ۔ صورتحال یہ ہے کہ شہباز شریف مریم نواز کے ساتھ بیٹھ کر پریس کانفرنس نہیں کر سکتے ہیں ۔ کوئی جلسہ نہیں کر سکتے ہیں ۔ پریس کانفرنس ہو تو میڈیا کی توجہ مریم نواز کی طرف ہوتی ہے ۔ جلسہ ہو توعوام کی جانب سے نعرے مریم نواز کے لگائے جاتے ہیں ۔ واقعاتی شہادتوں اورمجموعی صورتحال یہ ثابت کرتی ہے کہ نوازشریف اور مریم نواز کی زیادہ پریشانی میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کو ہے ۔ حکمرانوں کو اتنی عجلت نہیں ہے ۔ جتنی برادران یوسف کو ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز سیاست سے کنارہ کشی یا ملک سے باہر جانے پر راضی ہو جائیں ۔ جس کا سیدھا مطلب ہے کہ "سنیاں ہو جاون گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے "۔
https://www.youtube.com/watch?v=lYi8gwJIo30
قیاس ہے کہ نوازشریف کے ساتھ مقتدرقوتوں کی جانب سے مفاہمت کی خبریں پھیلانے کے ماسٹر مائنڈ بھی چھوٹے میاں ہیں اور چھوٹے میاں ہی مقتدر قوتوں سے بات کرتے ہیں جو نواز شریف مسترد کردیتے ہیں ۔ نواز شریف بھی شاید چھوٹے بھائی کی خواہش سے واقف ہیں ۔ شہباز شریف کی سیاسی زندگی مقتدرقوتوں کے ساتھ جوڑ توڑ پر مبنی ہے ۔ مزاحمت کی سیاست میں شہباز شریف کبھی نوازشریف کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے ہیں ۔ وہ ہر حال میں مفاہمت چاہتے ہیں بے شک نوازشریف کی قربانی دینا پڑے ۔ ووٹ کی عزت کا فلسفہ اور سولین بالادستی کی بات ڈیل اور مفاہمت کی کہانیوں میں کھوکر رہ گئی ہے ۔ شہباز شریف کی مفاہمتی کوشش پر نوازشریف کا ردعمل شرائط پر مبنی ہوتا ہے ۔ مطالبات رکھے جاتے ہیں ۔ خفت مٹانے کی خاطر ڈیل اور مفاہمت سے بھی انکار کیا جاتا ہے ۔ ڈیل اور مفاہمت کی حقیقت یہی ہے کہ شریف برادران سیاست نہیں کاروبار کرتے ہیں اور اچھا کرتے ہیں ۔ سیاست ان کے لئے ایک بہترین اور توانا کاروباری ہتھیار ہے ۔ آج نہیں تو کل شہباز شریف معاملات طے کر نے میں کامیاب ہوں گے ۔ مفاہمت ،ڈیل کی کوئی بھی شکل ہو سکتی ہے ۔ نوازشریف سیاست سے کنارہ کشی پر راضی ہو سکتے ہیں ۔ بیرون ممالک جا سکتے ہیں ۔ ڈیل کے ماہرین کچھ اسی صورت بھی نکال سکتے ہیں کہ سانپ بھی مرجائے اور ڈنڈا بھی بچا لیا جائے ۔
جو لوگ نوازشریف اور مریم نواز سے سولین بالاستی کے لئے جدوجہد کرنے کی امید رکھتے ہیں انہیں شاید اس بات کا علم نہیں ہے کہ شریف خاندان کے لوگ بہت سیانے ہیں ۔ وہ کبھی اپنا نقصان نہیں ہونے دیتے ہیں ۔ ایسا جذباتی پن بھٹو ز میں ہی پایا جاتا ہے ۔ جو شہادت کو مفاہمت پر ترجیح دیتے ہیں اور گڑھی خدا بخش کا قبرستان آباد کرتے چلے جاتے ہیں ۔