یہ قانون تاج برطانیہ کے دور میں ہندوستان سمیت یونین جیک کے نیچے دیگر 80 سے زائد غلام ریاستوں میں 1860 میں نافذ کیا گیا تھا۔ جس کا بنیادی مقصدبرطانوی سامراج کےخلاف بولنے اور آزادی کےلئےبات کرنے والوں کو ذلیل و رسوا کرنے کےلئے برطانوی تسلط کا خوف پیدا کرنا اور قانون کا سیاسی استعمال تھا۔
قابل افسوس اور شرمناک امر ہے کہ غلامی کی جکڑبندیاں یوں کی توں ہیں اور ان کا استعمال آج بھی برطانوی سامراج کے طریقے سے جاری ہے۔جس کا سیدھا مطلب ہے کہ آزادی صرف طاقتور اور صاحب اقتدار کےلئے ہے۔کمزور اور غریب عوام ابھی تک غلامی کے طوق میں جکڑے ہوئے ہیں۔ پولیس کا افسر اور سیاسی رہنما کےخلاف آواز اٹھانے والے کو ذلیل و رسوا کرنے اور اس کی عزت و آبرو برباد کرنے سمیت زندگی بھر کےلئے خاموش کرنے کے لئے دفعہ 377 لگادی جاتی ہے کہ اس کے رشتہ دار بھی منہ موڑ لیتے ہیں۔ دفعہ 377 کے تحت ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مقدمات درج ہیں جن میں 99 فیصد مقدمات جھوٹے اور بلیک میل کرنے کےلئے بنائے گئے ہیں۔
377 کا نشانہ بنائے جانے والے افراد میں زیادہ نوجوان ،کم عمر لڑکیاں،لڑکے،سیاسی کارکن ،اخباری رپورٹر،انسانی حقوق کے کارکن،خوجہ سراء شامل ہیں۔ دفعہ 377 کےتحت بلیک میلنگ اور غلط استعمال اسی طرح کی جاتا ہے۔ جس طرح 95 سی کو آڑ بنا کرانتقام لیا جاتا ہے۔
درج ذیل تفصیل مجموعہ تعزیرات پاکستان کے عین مطابق ہے اور اس میں زیر و زبر کا بھی ردوبدل نہیں کیا گیا ہے تاکہ واضع ہوسکے کہ دفعہ 377 ریپ یا ہم جنس پسندی کی روک کےلئے نہیں ہے بلکہ حجلہ عروسی میں مداخلت سمیت انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور شخصی آزادی کو سلب کرنے کی غیرانسانی حرکت ہے۔
جرائم خلاف وضع فطری کے بیان میں فطری وضع خلاف جرم دفعہ 377 کے مطابق جو کوئی شخص کسی مرد یا عورت یا جانور سے بلا رادہ شہوانی اختلاط خلاف وضع فطری کرے، اسے عمر قید یا دونوں قسموں میں سے کسی قسم کی قید کی سزا دی جائے گی، جس کی معیاد کم از کم دو سال اور زیادہ سے زیادہ دس برس تک ہو سکتی ہے اور وہ جرمانے کی سزا کا بھی مستو جب ہے ۔
وضا حت : دفاع ہذا میں بیان کردہ ضروری شہوانی اختلاط کی تشکیل کے لئے دخول کافی ہے۔
مقصد:۔انسانی اخلاق اور مذہبی تقاضوں کے لیے ضروری ہے کہ جنسی مباشرت کے صرف وہی طریقے استعمال کیے جائیں جو سلسلہ تولید کے لئے وقف ہیں ۔مرد اور عورت کو مذہبی اجازت کے دائرہ میں رہ کر مباشرت صرف افزائش نسل کے لیے کرنی چاہیے ۔یہ فطری فعل جما ع کہلاتا ہے۔ اس کے برعکس جب کوئی مرد کسی مرد سے یا عورت عورت سے یا انسان جانور سے شہوانی رابطہ قائم کرکے حیوانی خواہشات پوری کرے تو اس کا فعل فطری تقاضوں کے خلاف قرار پاتا ہے۔ مقصد ایسے غیر فطری فعل کو قابل سزا ٹھہرانا ہے۔
رضامندی:۔ وفعد ہذا کے تحت جرم میں مفعول کی رضامندی بطور عذر غیر موثر و غیر متعلق ہے۔ فاعل اور رضامندی مفعول دونوں مستوجب ہوتے ہیں۔ مفعول کی حیثیت شریک جرم کی ہوتی ہے۔ کوئی شادی شدہ عورت جو اپنے شوہر کے ساتھ خلاف وضع فطری فعل پر راضی ہوتی ہے۔ شریک جرم ہے۔
دفعہ 376 اور 377 کا فرق:۔ دفعہ 376 اور 377 میں صرف دو الفاظ سے فرق پیدا کیا گیا ہے ۔دفعہ 376 میں جنسی مباشرت اور دفعہ 377 میں شہوانی اختلاط کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ نیز دفعہ 377 میں خلاف وضع فطری کے الفاظ استعمال کر کے مضمون کی مزید وضاحت کر دی گئی ہے۔ہر جنسی فعل میں شہوانی اختلاط کا عنصر موجود ہوتا ہے مگر ہر شہوانی اختلاط میں فطری جنسی عمل موجود نہیں ہوتا ہے ۔دونوں صورتوں میں مباثرت یا اختلاط کو قائم رکھا گیا ہے۔جنسی مباشرت میں دو مختلف انسانوں کے اعضائے تناسل کا باہمی اختلاط شامل ہے جبکہ شہوانی اختلاط میں اس بارے میں اختلاف موجود ہے۔انگریزی قانون میں رسل اور سٹیفن نے تحریر کیا ہے کہ جرم کی تشکیل کے لئے ضروری ہے کہ فعل جسم کے کس اس حصے میں کیا جائے جہاں اغلام یا لواطت کی جاتی ہے۔
دخول:۔دفعہ ہذا کی وضاحت میں بتایا گیا ہے کہ شہوانی اختلاط کی تشکیل کے لئے دخول کافی ہے۔یعنی انزال کا ہونا یا نہ ہونا غیر متعلق ہے۔ اگرچہ منی کے نشانات اثبات جرم کی شہادت کے لیے اہمیت کے حامل ہیں ۔اگر عدالت کی تسلی ہو جائے کے دخول ہوا تھا تو جرم تشکیل شدہ ہوگا۔
پی ایل ڈی 1970 پشاور 146 کے مطابق جس جرم کی دفعہ 377میں سزا مقرر کی گئی ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ دخول ہوا ہو۔چاہے یہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو ۔پس اس جرم کا اقدام مفعول کے مقعد میں آلہ تناسل داخل کرنے کا اقدام ہونا چاہیے ۔ملزم کی طرف سے اس سمت میں کوئی حرکت ثابت کرنا ضروری ہوگا ۔جب کہ ملزم کی نیت شہوانی اختلاط خلاف وضع فطری کرنے کی تھی اور اس نے اپنی ہوس کو پورا کرنے کے لیے جملہ تیاریاں کی مگر قبل اس کے کہ وہ اپنا عضو داخل کرتا اسے انزال ہوگیا تو عدالت نے قرار دیا کہ اس نے کوئی ایسا فعل نہیں کیا تھا جس سے اغلام کے جرم کے ارتکاب کا اقدام کہا جا سکے ۔
پی ایل ڈی 1961 ڈھاکہ 447ۤۤ اور پی ایل ڈی 1961 پشاور 17 کے مطابق دفعہ 377 کے تحت الزام کے حق میں شہادت موثر ہونی چاہیے کیونکہ ایسا الزام لگانا تو آسان ہوتا ہے مگر اس کو رد کرنا نہایت مشکل کام ہوتا ہے۔
کوئی شخص دفعہ 377 کے تحت مجرم قرار دیا جاسکتا ہے۔ چاہے مقعد میں واقعی دخول نہ بھی ہوا ہو یا قانونی لحاظ سے اس کا اقدام نہ بھی کیا ہو گیا ہو۔جبکہ ایک ملزم نے گیارہ سے بارہ سالہ لڑکے کو زمین میں اس طرح گرا لیا کہ اس کا منہ اوپر کی طرف تھا اور ملزم نے اس کی رانوں میں خالی جگہ بنا کر اس میںاپنا آلہ تناسل داخل کیا اور منی انزال ہونے پر کھڑا ہوگیا تو قرار دیا گیا کہ ملزم دفعہ377 کے تحت مجرم تھا.کیوں کہ اس دفعہ کے تحت جرم کی تشکیل کے لئے ہر صورت میں دخول ہونا لازمی نہیں ہے۔ ملزم کے آلہ تناسل کا لڑکے کی رانوں کے درمیان داخل ہونا دخول اور شہوانی اختلاط کے مترادف ہے۔یہ شہوانی اختلاط ہے کیونکہ ملاپ کرنے والا عضو اس عضو میں ملفوف ہوگیا تھا یعنی لڑکے کی رانوں میں ملفوف ہو گیا تھا۔
پی ایل ڈی 1961 ڈھاکہ 447 کے مطابق جبکہ ملزم دخول سے قبل انزال ہو جائے تو وہ غیر فطری جرم کے اقدام کا مجرم ہوگا ۔
پی ایل ڈی 1959لاہور کے مطابق کہا گیا کہ شہادت ثابت کریں کہ ملزم نے کسی مرد عورت یا جانور سے شہوانی اختلاط کیا۔ ایسی مباشرت خلاف وضع فطری تھی ۔ ملزم نے ایسا فعل بلا ارادہ کیا۔ دخول ہوا تھا ۔ مفعول کے بیان پر ملزم کو سزا یاب کرنا غیر محفوظ ہو گا جبکہ اس کے بیان کی تائید نہ کی گئی ہو۔سوائے اس کے کہ ایسی شہادت کو خاص طور پر وزنی قرار دیا جا سکتا ہو۔
اغلام کے مقدمات میں منی کے داغ اہم شہادت تشکیل دیتے ہیں لہذا کیمیکل ایگزامز، ممتحن کیمیائی کی رپورٹ کو بہت اہمیت دی جانی چاہیے ۔ دفعہ 377 پر ضابطہ کی کاروائی قابل دست اندازی وارنٹ،ناقابل راضی نامہ، قابل سماعت عدالت سیشن یا مجسٹریٹ درجہ اول ہے۔