اک انقلاب، انقلاب محمدی ﷺ ہے سب انقلابوں پر بھاری

اک انقلاب، انقلاب محمدی ﷺ ہے سب انقلابوں پر بھاری
تاریخ کے طلباء کے لیے انقلاب سے بڑھ کر کوئی دلچسپ چیز نہیں۔ انقلاب،اپنے اندر صدیوں کے تجربے سمیٹے ہوئے ہے۔ سننے میں ہی کچھ خوفناک تصویر پیش کرتا ہے۔ ہزاروں لوگوں کا قتل عام،خوف ودہشت کا ایک دور،چور بازاری کے گرم اڈے ،غیروں کا حالات سے فائدہ اٹھانا اور قوموں کی تباہی، یہ ہیں وہ تمام باتیں جو کہ انقلاب کا منظر پیش کرتی ہیں۔ ایسا غلط بھی نہیں کیونکہ پچھلی کچھ دہائیوں یا ایک دو صدی پہلے تو تاریخ نے ایسے ہی انقلاب دیکھے تھے۔ راب سپئیر کا انقلاب فرانس،روسو اور والٹئیر کے بلند و بانگ آزادی کے نعرے اور پھر اس کے بعد وہی ہوا کہ انقلاب اپنے ہی بچے کھا گیا۔ گلوٹین کلچر کا آغاز ہوااور دہائیوں تک انصاف کی گردن کاٹتا رہا۔ اچھا برا بدتر یا بدترین یہ انقلاب سب کو نگل گیا۔لاکھوں جانیں جانے کے بعد معلوم پڑا کہ یہ انقلاب بھی نا مکمل تھا جسے نپولین بوناپارٹ کی فوجی آمریت نے کچل کر رکھ دیا۔

اس کے بعد لینن کا انقلاب ۔اس میں بھی حالات زیادہ مختلف نہ تھے۔لاکھوں روسی یوں قتل ہوۓ کہ تاریخ کے اوراق سرخ ہو گئے۔ شاید یہ بھی ایک وجہ تھی کہ اسے سرخ انقلاب کا نام دیا گیا ۔ کیوبا کا انقلاب ،جنوبی امریکی ممالک میں چے گویرا کی یلغاراور پھر اپنے ایران کا اسلامی انقلاب۔غرض جو بھی ہوا انقلاب کے نام پر لاکھوں لوگوں کا خون بہا۔ وہ لوگ بھی مارے گئے جنہیں انقلاب کے نعرے کا مقصد تک نہ پتہ تھا۔ یہ تھے ماضی کے کچھ اہم ترین انقلاب جنہوں نے دنیا بدل کر رکھ دی اور تاریخ کے اہم ترین صفحات میں شامل ہو کۓ،لہٰذا ان باتوں سے یہ معقولہ تو سچ ثابت ہوا کہ انقلاب خون مانگتا ہے۔

مگر یہ دنیا بہت ہی وسیع ہے۔ یہاں پر نیم سے کڑوے لوگ اور شہد سے میٹھے وفادار بھی مل جاتے ہیں۔آپ قارئین کو ایک اور انقلاب کی داستان سناتا ہوں۔ بلکہ داستان کیا ایک زندہ مثال ۔۔ وہ ساتویں صدی کا عرب،شرک کا گہوارا ،عورتوں کو زندہ جلانے والا ،اجاراداری کو اپنا فخر سمجھنے والا ،غریب کو نوچ لینے والا اور امیر کو آقا ماننے والاعرب۔عین اسی عرب کی سر زمین سے ایک ایسا انقلاب رونماہوا جس نے کل کائنات کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ یہ تھا وہ انقلاب محمدیﷺ جس نے کرہ ارض کو وہ مناظر بھی دکھائے کہ ہر طرح کی طاقت اور اختیار کے باوجود ایک خون کا قطرہ بھی بہائے بغیر مکہ کو فتح کر لیا گیا۔ چار اطراف سے مکہ میں جب افواج داخل ہوئیں تو کفار ہیبت سے لرزا تھے،مگر حضور تھے ان کو تہ تیغ کرنے کی طاقت کے باوجود انہیں اس کشادہ دلی سے معاف کیا کہ کفار بھی کلمہ پکار اٹھے۔یہ بھی ایک انقلاب ہی تھا جس نے فتوحات کا وہ آغاز کیا کہ کائنات دنگ رہ گئی۔

 

یہ تھا وہ عظیم انقلاب محمد جسے دنیا کا کامل انقلاب قرار دیا گیا۔ جس نے فارس کے آتش کدے بجھا دیے۔ روم کے محلات کو ریت بنایا اور اہل عالم کو خود سے روشناس کروایا۔ پچھلے انقلاب آئے نظاموں کے نام پر مگر یہ وہ انقلاب تھا جو کلمے کی بنیاد پر آیا اور دنیا کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ یہ وہ انقلاب تھا جسے یہ سروکار نہ تھا کہ مستفید ہونے والا کمیونسٹ ہے یا سرمایہ دار؟ یہ نظام کل دنیا کے لیے تھا۔ یہ وہ دینی و نظامی انقلاب تھا جس نے ہمیں معاشرت،سیاست ،معیشت،سائنس،علم و حکمت غرض دنیا کی ہر دولت سے نوازا ۔ رومی و یونانی فلسفہ کو زندہ کیا۔ جدید سائنس کی بنیاد رکھی۔عملی طور پر ہم سائنس میں اتنا آگے تھے کہ دنیا ہمیں کوئی اور مخلوق سمجھتی تھی۔ کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ کس قوم کے رعب سے کفار ہم سے لڑنے سے کتراتے تھے؟وہ صحرا نشین جو کہ اپنے وقت کی دو طاقتوں میں پسے ہوۓ تھے۔ وہ بائیس لاکھ مربع میل کے حاکم بن گئے۔وہ کہتے ہیں نا اقبال کہ

تمدن آفریں خلاق آئین جہانداری وہ صحراۓ عرب یعنی شتر بانوں کا گہوارا

لیکن وہ بھی کیا انقلاب جو کہ کسی خاص قوم کے لیے ہو۔ یہ تو وہ عظیم انقلاب تھا جس سے کائنات کے ہر ذرے نے مستفید ہونا تھا۔ یہ تو وہ تبدیلی جو کہ اس سے پہلے اور بعد کبھی نہ دیکھی گئی۔عربوں کو چھوڑیں آگے بڑھتے ہیں۔یہ حضورﷺ کا دیا جذبہ ایمانی ہی تھا کہ خانہ بدوش ترک صدیوں تک حجاذ کے نگہبان رہے۔ وہ کیا روشنی تھی جس نے گمنام شہروں کو علم و حکمت کا گہوارا بنا ڈالا،جس نے قرطبہ کو جوہر عالم بنایا،جس نے بغداد کو دارالحکمت بنایا،جس نے سندھ کے صحرائی ریگزاروں کو منور کیا،جس نے مراکش کو مرکز تجارت بنایا۔ جس نے وسطی ایشیاء کے منگولوں کا دل نرم کیا،جس نے دہلی کے کوچوں مین اذانیں دلوائیں،جس نے کابل کو اس دور کے مسلمانوں کا نیویارک اور تہران کو جنیوا بنایا۔ لیکن اب ہمارے پاس انقلابات کو پڑھنے کا وقت ہی نہیں ۔
ہزاروں انقلاب آئے،لاکھوں نظام ناپید ہوۓ مگر یہ ایک عجیب تبدیلی تھی جسے دنیا میں کہ لاکھوں کوششوں کے باوجود ختم نہ کیا جا سکا۔ ماضی میں جھانک لیں اور مستقبل میں بھی ہو سکے تو ڈھونڈ لیں ،ہے کوئی ایسا نطام جو اس نظام کو ٹکر دے سکے؟

پھر اقبال ہی یاد آۓ کہ
تھے تو تمہارے ہی آباء مگر تم کیا ہو؟ ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتطر فردا ہو
آج ہمارے پاس انقلاب و نظام کو برا کہنے والے تو بہت ہیں بلکہ کروڑوں میں ہیں مگر نظام کی درستگی والا کوئی ایک بھی نہیں۔ کیونکہ انقلاب تو ادھر آتے ہیں جہاں لوگ بھوکے مرتے ہوں۔ بھوکوں تو ہم بھی مر رہے ہیں مگر ہماری اپنی سیاسی آقاؤں سے بیعت اس قدر مضبوط ہی کہ ہمیں بھوک سے خودکشی کر لینی ہے مگر نظام میں بہتری نہ لائیں گے۔ بہتری تو دور کی بات ہم خود ہی نظام کے عادی ہو جائیں گے اور اسے ہی اپنے موافق بنا لیں گے۔ رشوت لے کر،کرپشن سے دولت بنا کر،غریب کا حق ما رکر ،پٹواریوں کو ساتھ ملا کر یا من پسند فتوے لے کر کچھ بھی کر لیں گے مگر نظام کو تبدیل نہ کریں گے۔ کیونکہ حرام طریقے ہمیں موافق آنے لگے ہیں۔ہمارے پاس اب محض اپنی عظمت رفتہ کے حسین قصے ہیں جنھیں ہم لکھتے سنتے ہیں اور سینہ چوڑا کرتے ہیں۔
آخر ہم کس بات کا انتظار کر رہے ہیں؟آکر کیوں خاموش ہیں ؟مجبوریاں ہمیں اپنا ساتھی کیوں سمھجتی ہیں؟ہم انقلاب کے نام سے کیوں خوف کھاتے ہیں؟ان سب کے جوابات تو شاید اس نا چیز کے پاس بھی نہیں ہیں مگر ڈر ہے کہ ایسا چلتا رہا تو ہمارا حشر وہ ہو گا کہ لوگ بغداد کو بھول جائیں گے۔ کیا ہم ان دنوں کا انتظار کر رہے ہیں کہ اسلام آباد میں بھی یہ نعرے لگیں کہ روٹی نہیں ملتی تو ڈبل روٹی کھائیں ۔ کیا ہم کسی اور بڑے حادثے کا انتطار کر رہے ہیں؟ہم نے کیا کچھ نہیں سہہ لیا؟اپنا ایک بازو کٹوالیا،150 بچے شہید کر وا لیے۔ انہیں کیا جواب دیں گے ہم؟کیا یہی کہ ہم نے ان کی یاد میں " بڑا دشمن بنا پھرتا ہے" ایک نغمہ بنایا تھا۔ باباۓ قوم محمد علی جناح کو کیا جواب دیں گے کہ ہمیں تو لنگڑا لولا پاکستان ملا تھا؟ ہمیں اب اس نظام سے آزاد ہو کر ایک حقیقی انقلاب کی طرف بڑھنا ہو گا۔ انقلاب محمدی ﷺ سے سیکھتے ہوۓ ایک نیا نظام قائم کرنا ہو گا ،وگرنہ مغرب میں گئے تو یقینا ڈوب جائیں گے۔
اب ہمیں پھر سے تیار ہونا ہو گا، پھر سے اٹھ کر دنیا کو جگانا ہے۔ پھر سے پرچم بہار کو خزاؤں کے ٹیلوں پر لہرانا ہو گا۔ پھر سے اقبال جیسا خواب دیکھنا ہے۔ مگر ان سب سے پہلے ہمیں انفرادی طور پر انقلاب کے اہل بننا ہے تا کہ قیامت کے روز ہم جواب دے پائیں کہ ہم نے جان دینے سے پہلے اپنے حصے کا دیا روشن کر دیا تھا۔ ہمیں بدلنا ہو گا کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو ہم ایک ناپید قوم بن جائیں گے،جس کا تاریخ میں کہی اچھا نام تو بالکل نہ ہو گا۔
آخر میں امیدوں کو باندھ دینے والی نظم قارئین کے نام
تم ہی تو نکلتے سورج ہو
تم ہی تو ہو حق کی شمشیریں
تم ہی سے یہ سارا عالم ہر
تم ہی ہو یہ ر نگیں تصویریں
تم ہی سے ہیں سب کی امیدیں
تم ہی ہو قرآں کی تفسیریں
تم ہی تو خدا کے بندے ھو
کہ اونچے لہکتے جھنڈے ہو
جو خود کو کبھی پہچانو گے
تب ہی یہ راز تم جانو گے
کہ خود کا دیا تم خود ہی ہو
کہ ظلمت خود،خود روشنی ہو
اس سبز علم کا ہلال ہو تم
شاہین ھو تم اقبال ھو تم
جو مصیبتوں سے جا ٹکراۓ
وہ قوت و ہمت و مجال ہو تم
کہنے کو تو تم اک ذرہ ہو
پر آخری حد کی کمال ھو تم
خود ہی کی آگ بھڑکانے کو
اک زندہ مشعل و مثال ھو تم
تم سورج بنو مہتاب بنو
تم اپنا رہبر آپ بنو
تم گزرے قائداعظم ہو
تم اگلے وزیراعظم ہو
زمین ہو تم،آسمان ہو تم
مختصر کہ سارا جہان ہو تم
یہ ساری باتیں ایک جگہ
محشر میں محمدﷺ کی شان ہو تم۔