وارث رضا کی بیٹی لیلہ رضا نے تصدیق کی کہ وہ شام کو گھر واپس آئے۔
https://twitter.com/LylaRaza/status/1440674553903005704
اس سے قبل وارث کی بیٹی لیلیٰ رضا نے ایک ٹوئٹ میں الزام لگایا تھا کہ ان کے والد کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اغوا کیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ تمام ترقی پسند آوازوں کو دبانا چاہتے ہیں، میرے والد نے طاقتوروں کے سامنے سچ بولنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔
https://twitter.com/LylaRaza/status/1440589126785331205
وارث رضا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں 30 سال سے زیادہ کا تجربہ رکھتے ہیں اور وہ اس وقت اردو روزنامہ ایکسپریس کے لیے بحیثیت کالم نگار کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں ملک میں پریس کی آزادی کے لیے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی 70 سالہ جدوجہد کے بارے میں ایک کتاب بھی مرتب کی ہے۔
واضح رہے کہ سینیئر صحافی وارث رضا کو اُن کے خاندان کے مطابق منگل اور بدھ کی درمیانی شب کراچی کے علاقے گلشنِ اقبال سے مبینہ طور پر حراست میں لے لیا گیا تھا۔
وارث رضا کے خاندان کا دعویٰ تھا کہ انھیں ’جمہوریت کی حمایت اور ہائبرڈ نظام کی مخالفت‘ کرنے پر حراست میں لیا گیا۔ اس واقعے کے خلاف پاکستانی صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے 23 ستمبر کو ملک گیر احتجاج کی کال دی تھی۔
تقریباً 14 گھنٹے کی گمشدگی کے بعد گھر واپسی پر وارث رضا نے بی بی سی کو بتایا کہ اُنھیں کسی نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا جہاں ان کی آنکھوں پر مسلسل پٹی بندھی ہوئی تھی۔
صحافی وارث رضا کے مطابق انہیں حراست میں لینے والے رینجرز نہیں بلکہ ایجنسی والے ہیں تاہم یہ نہیں بتایا کہ وہ کس ادارے سے تعلق رکھتے ہیں۔
وارث رضا نے رہا ہونے کے بعد انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اُنھیں کہا گیا کہ آپ ریاست کے خلاف لکھتے ہیں، جس کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ وہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 19 کے تحت حاصل حق کے مطابق لکھتے ہیں، جس پر ان سے پوچھا گیا کہ یہ آرٹیکل کیا ہے اور اُنھوں نے بتایا کہ یہ تقریر اور تحریر کی آزادی دیتا ہے۔
وارث رضا کے مطابق اُنھیں فیس بک کی پوسٹس کا حوالہ دیا گیا، ایکسپریس میں لکھا گیا کالم بھی سامنے رکھا گیا اور پوچھا گیا کہ ’آپ ہائبرڈ نظام کے خلاف ہیں، کیا یہ واقعی اتنا خراب ہے؟‘ اُنھوں نے جواب دیا کہ یہ جمہوری اقدار اور حقیقی جموریت کے خلاف ہے۔
وارث رضا نے بتایا کہ مجھے کہا گیا کہ آپ ایماندار انسان ہیں، خیال کیا کریں، آپ پاکستان میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس کے خلاف کیوں ہیں۔ میں نے اُنھیں کہا کہ میں ریاست کے خلاف نہیں ہوں۔ اُنھوں نے کہا کہ احتیاط کریں، آئندہ ایسا نہ کیجیے گا۔ میں نے واضح کیا کہ اظہار رائے کی آزادی سے دستبردار نہیں ہوں گا۔
وارث رضا کے مطابق بعد میں اُنھیں گلشنِ اقبال کے مبینہ ٹاؤن تھانے کے قریب لا کر چھوڑا گیا جہاں سے وہ واپس گھر آگئے۔
وارث رضا ان دنوں اردو روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ ہیں۔ وہ ماضی میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سرکردہ رکن اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے مرکزی سیکریٹری جنرل کے منصب پر فائز بھی رہ چکے ہیں۔
پی ایف یو جے نے وارث رضا کو حراست میں لیے جانے کی مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ تنظیم کے مطابق اگر حکومت سمجھتی ہے کہ چند لوگوں کی گرفتاری یا ان کے خلاف مقدمات سے سیاہ قوانین کے لیے راہ ہموار ہو گی تو یہ ان خام خیالی ہے۔
پی یو ایف جے کے صدر شہزادہ ذولفقار نے کہا تھا کہ وارث رضا آزادی صحافت کے ہراول دستہ میں ہمیشہ پیش پیش رہے ان کی گرفتاری پر تشویش ہے۔
کے یو جے کے صدر نظام الدین صدیقی اور جنرل سیکریٹری فہیم صدیقی سمیت مجلس عاملہ کے تمام اراکین کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ وارث رضا ایک سینئر صحافی ہیں جو پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا میں مختلف اداروں سے وابستہ رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی ملک میں آزادی صحافت کی 70 سالہ جدوجہد کو کتابی شکل میں لانے کا اہم کام بطور مدیر انجام دیا ہےوہ آزادی صحافت اور اظہار رائے کیلئے اٹھنے والی ہر تحریک میں ہر اوّل دستے کا حصہ رہے ہیں۔
صحافی تنظیموں کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ان کی گرفتاری انتہائی تشویشناک ہے جبکہ کراچی یونین آف جرنلسٹس اسے آزادی صحافت پر حملہ تصور کرتی ہے۔ ملک میں اس وقت ہر اس توانا آواز کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے جو آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتی ہے کے یو جے نے مطالبہ کیا ہے کہ سینئر صحافی وارث رضا کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔
صحافی وارث رضا کو جبری حراست میں لئے جانے کے خلاف صحافی تنظیموں نے ملک گیر احتجاج کا اعلان بھی کر دیا تھا ۔ اس مد میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ نے ملک بھر کے صحافیوں کو احتجاج کی کال دی تھی۔