معاملے کا پس منظر
امریکی ڈالر تمام پچھلے ریکارڈز توڑتے ہوئے تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زر کی آمد کا حجم 10سال کی بلند سطح پر پہنچنے کے باوجود روپیہ مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے۔ بیرونی ادائیگیوں، بڑھتی ہوئی درآمدات نے روپیہ کو کمزور رکھا جبکہ معاشی مستقبل کے بارے میں غیریقینی صورتحال سے بھی ڈالر کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے۔ ملکی ریکارڈ درآمدات، تاریخ ساز کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی روپیہ کی قدر پر اثر انداز ہورہا ہے۔سٹیٹ بینک آف پاکستان کی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں ہفتے کے دوسرے کاروباری روز کے دوران انٹر بینک میں روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر مزید 84 پیسے مہنگا ہو گیا اورقیمت 168 روپے 10 پیسے سے بڑھ کر 168 روپے 94 پیسے ہو گئی ہے۔7 مئی سے اب تک ڈالر 17 روپے 64 پیسے مہنگا ہوا ۔ 4 ماہ کے دوران ڈالر ساڑھے 10 فیصد مہنگا ہوا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں یہ اضافہ ایک جانب تو بڑھتی ہوئی درآمدات کی وجہ ہے تع دوسری جانب افغانستان کی جانب ڈالر فلائٹ ہے۔ صورتحال کو کچھ یوں بیان کیا جا رہا ہے کہ پاکستان نے افغانستان کا نظام زر چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
افغانستان کا مرکزی بینک غیر فعال ہے
صورتحال یہ ہے کہ افغانستان میں اگرچہ پیسوں کی کمی کئی ہفتوں سے جاری ہے ، لیکن ملک کے بینکوں نے حالیہ دنوں میں بارہا اپنی تشویش نئی حکومت اور مرکزی بینک تک پہنچائی ہے۔
نجی بینکوں نے مرکزی بینک سے کہا ہے کہ وہ امریکی ڈالر کی فراہمی کو ممکن بنائے۔ لیکن انہیں ابھی تک اپنی درخواستوں کا جواب نہیں مل سکا ہے۔
روئٹرز نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ’ صرف چند دنوں کی ادائیگی کی لیکویڈیٹی باقی ہے، اگر حکومت نے صورتحال پر فوری اقدامات نہ کیے تو صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے‘۔
بدھ کو اپنی ویب سائٹ پر ایک بیان میں مرکزی بینک کے قائم مقام گورنر نے کہا کہ بینک مستحکم ہیں۔
انہوں نے کہا ،”بینک مکمل طور پر محفوظ ہیں، کمرشل بینک عام طور پر اپنے سرمائے کا 10 فیصد نقد کے طور پر رکھتے ہیں اور افغانستان میں اوسطا 50، 50 فیصد نقد رقم رکھتے ہیں۔ تاہم مرکزی بینک نے عوام پر زور دیا کہ وہ مقامی کرنسی استعمال کریں۔