نئے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل محمد عاصم ملک کون ہیں؟

اگر سہیل وڑائچ کی بات مان لی جائے تو جنرل ندیم انجم کی رخصتی سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پاک فوج نے مستقبل کی حکمت عملی طے کر لی ہے۔ اس سے یہ بھی تاثر قائم کرنے میں مدد ملتی ہے کہ آرمی چیف فیصلہ کر چکے ہیں کہ کنٹرول اپنے ہاتھ میں ہی رکھا جائے اور موجودہ حکومت کو فری ہینڈ نہ دیا جائے۔

06:54 PM, 23 Sep, 2024

نیا دور

پیر کے روز پاکستانی سرکاری میڈیا نے جونہی یہ خبر دی کہ پاک فوج نے لیفٹیننٹ جنرل محمد عاصم ملک کو آئی ایس آئی کا نیا ڈائریکٹر جنرل تعینات کر دیا ہے تو یہ مقامی میڈیا پر چلنے والی سب سے بڑی خبر بن گئی۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ کا تقرر شروع سے اتنی ہی بڑی خبر رہا ہے کیونکہ پاکستان کے کم و بیش تمام اندرونی و بیرونی معاملات میں آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ کا اثرورسوخ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ جنرل اسد درانی ہوں یا جنرل حمید گل، جنرل ظہیر الاسلام ہوں یا جنرل احمد شجاع پاشا، یا پھر جنرل فیض حمید، آئی ایس آئی کی سربراہی جب ان کے ہاتھوں میں آئی تو یہ ملک کی طاقتور ترین شخصیات کے روپ میں سامنے آئے۔

آئی ایس آئی چیف کا تقرر کیسے ہوتا ہے؟

قواعد کے مطابق آئی ایس آئی کا سربراہ ملک کے وزیر اعظم کے ماتحت ہوتا ہے لیکن وہ آرمی چیف کو بھی جواب دہ ہوتا ہے۔ آئی ایس آئی چیف کے لیے آرمی چیف وزیر اعظم کو چند نام بھیجتے ہیں جن میں سے وزیر اعظم کسی ایک نام کی مںظوری دیتے ہیں۔ وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ بھی وزیر اعظم کو 4 نام بھجوائے گئے تھے جن میں سے انہوں نے لیفٹیننٹ جنرل محمد عاصم ملک کے نام کی منظوری دی ہے۔

قاعدے کے مطابق تو یہی ہوتا ہے مگر باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ آرمی چیف عام طور پر پہلے ہی وزیر اعظم کو بتا دیتے ہیں کہ فلاں امیدوار زیادہ موزوں ہے اور یوں نیا آئی ایس آئی چیف عام طور پر آرمی چیف ہی کا منظور نظر ہوتا ہے۔ وزیر اعظم اگر اپنی مرضی سے آئی ایس آئی چیف لگانے کی کوشش کریں تو سویلین حکومت اور فوجی قیادت کے مابین حالات کشیدہ ہونے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔

حالیہ تاریخ میں اس تلخی کا ثبوت اس وقت ملا جب موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کی تعیناتی کے موقع پر اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے مابین اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔

لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو 20 نومبر 2021 کو لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی جگہ ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کیا گیا تھا۔ اس وقت جنرل قمر جاوید باجوہ آرمی چیف تھے جبکہ عمران خان وزیر اعظم تھے۔ اگرچہ اس تعیناتی سے قبل آرمی چیف اور وزیر اعظم 'سیم پیج' پر تھے مگر یہی وہ موقع تھا جب یہ 'سیم پیج' پھٹ گیا۔ وزیر اعظم عمران خان لیفٹینٹ جنرل فیض حمید کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر برقرار رکھنا چاہتے تھے مگر آرمی چیف جنرل ندیم انجم کی تعیناتی پر مصر تھے۔ آرمی چیف کی بھجوائی ہوئی سمری پر وزیر اعظم عمران خان نے ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصے تک دستخط نہ کیے، تاہم بعد میں عمران خان جنرل ندیم انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی لگانے پر راضی ہو گئے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ یہی تعیناتی جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیر اعظم عمران خان کے مابین اختلافات کی بڑی وجہ بنی جس کے بعد عمران خان کے خلاف پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد لا کر ان کی حکومت کو ختم کر دیا گیا تھا۔

لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو ستمبر 2023 میں ریٹائر ہونا تھا تاہم اس وقت انہیں مدت ملازمت میں توسیع دے کر تاحکم ثانی ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر برقرار رکھا گیا تھا۔

معروف تجزیہ کار مزمل سہرودری نے 'نیا دور' پر دو روز قبل ہی سب سے پہلے یہ خبر بریک کر دی تھی کہ موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم ریٹائر ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل محمد عاصم ملک نئے ڈی جی آئی ایس آئی تعینات ہوں گے۔

جنرل عاصم ملک کون ہیں؟

جنرل عاصم ملک کا تعلق ایک فوجی خاندان سے ہے۔ ان کے والد غلام محمد ملک پاک فوج سے بطور لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل غلام محمد ملک پاک فوج کی 10 کور کے کمانڈر رہ چکے ہیں۔ جنرل غلام محمد ملک عام طور پر جنرل جی ایم کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

90 کی دہائی کے اوائل میں وہ اس وقت کور کمانڈر راولپنڈی تھے جب وزیر اعظم نواز شریف اور صدر غلام اسحاق خان کے مابین تعلقات خراب ہو گئے۔ نواز شریف کی پہلی حکومت کو صدر غلام اسحاق خان نے برطرف کر دیا تھا مگر 1993 میں سپریم کورٹ نے یہ حکومت بحال کر دی تھی۔ اس دوران وزیر اعظم نواز شریف اور صدر غلام اسحاق خان کے باہمی تعلقات تلخیوں کے شکار ہو چکے تھے۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے دونوں کے بیچ مصالحت کی کوشش کی۔

نواز شریف سے استعفیٰ دینے کا کہا گیا تو انہوں نے شرط رکھی کہ صدر غلام اسحاق خان بھی مستعفی ہوں۔ اس وقت جنرل غلام محمد ملک کور کمانڈر راولپنڈی تھے۔ نواز شریف استعفیٰ دے چکے تھے اور ایک مرتبہ صدر ہاؤس میں مذاکرات کے بعد جب باہر نکلے تو غصے میں صدر غلام اسحاق خان سے متعلق کچھ باتیں کیں۔ جنرل غلام محمد ملک اس موقع پر موجود تھے اور انہوں نے ایک پروفیشنل فوجی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے نواز شریف سے کہا تھا کہ صدر کے خلاف ایسا کچھ نہ کہیں کیونکہ اب آپ وزیر اعظم نہیں ہیں۔

جنرل غلام محمد ملک نے 1995 میں ریٹائرمنٹ کے بعد ایک خیراتی ادارہ قائم کیا جس کے تحت پاکستان کے مختلف حصوں میں غریبوں کے لیے اسپتال تعمیر کیے گئے۔

جنرل عاصم ملک کا فوجی کیریئر

لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک نے 80 لانگ کورس سے پاک آرمی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کورس کی تکمیل پر اعزازی شمشیر (سورڈ آف آنر) بھی حاصل کر چکے ہیں۔

عسکری ذرائع کے مطابق بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل محمد عاصم ملک اس وقت جی ایچ کیو میں ایڈجوٹنٹ جنرل کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

اس سے پہلے جنرل عاصم ملک بلوچستان میں انفنٹری ڈویژن اور وزیرستان میں انفنٹری بریگیڈ کمانڈ کر چکے ہیں۔ وہ ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ میں بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں چیف انسٹرکٹر اور کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹر بھی رہ چکے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل عاصم فورٹ لیون ورتھ اور رائل کالج آف ڈیفنس سٹڈیز کے گریجویٹ بھی ہیں۔ انہیں 6 اکتوبر 2021 کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔

بتایا جا رہا ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کے کورٹ مارشل کے معاملات کو بھی نئے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل عاصم ملک ہی دیکھ رہے تھے۔

سہیل وڑائچ کی پیش گوئی

عام انتخابات 2024 کے بعد معروف کالم نگار سہیل وڑائچ نے اپنے ایک علامتی کالم میں جنرل ندیم انجم کو لومڑ اور جنرل فیصل نصیر کو بارہ سنگھا لکھتے ہوئے دونوں کے مابین جاری چپقلش کا حال سنایا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی ٹیم کے دو بڑے کھلاڑیوں یعنی ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم اور ڈی جی سی جنرل فیصل نصیر کے مابین کشمکش جاری ہے۔ ان دونوں کی باہمی چپقلش سے جنرل عاصم منیر کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ دونوں مختلف رائے رکھتے ہیں، دونوں کے طریقہ کار میں بھی فرق ہے مگر دونوں آرمی چیف کے وفادار ہیں۔

سہیل وڑائچ نے یہ بھی لکھا تھا کہ دانشوروں کے مطابق دونوں سینیئر عہدیدار ایک ساتھ نہیں چل سکتے، دونوں میں سے کوئی ایک رہے گا جبکہ دوسرا کہیں اور چلا جائے گا۔ سہیل وڑائچ کے الفاظ تھے؛ 'اگر تو خاکی بادشاہ (آرمی چیف) نے موجودہ حکومت کو فری ہینڈ دینے کا فیصلہ کیا تو لومڑ (جنرل ندیم انجم) کا بول بالا ہونے کا امکان ہے۔ لومڑ بادشاہ کو شروع سے مشورہ دے رہا ہے کہ جنگل کو ترقی دینی ہے تو قریبی جنگل بنگال کے ماڈل پر چلا جائے جبکہ بارہ سنگھا (جنرل فیصل نصیر) سمجھتا ہے کہ کنٹرول بادشاہ اور شیروں کا ہی رہنا چاہیے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ لڑائی صرف لومڑ اور بارہ سنگھے کی نہیں، یہ لڑائی مستقبل کی حکمت عملی کی ہے'۔

اگر سہیل وڑائچ کی بات مان لی جائے تو جنرل ندیم انجم کی رخصتی سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پاک فوج نے مستقبل کی حکمت عملی طے کر لی ہے۔ اس سے یہ بھی تاثر قائم کرنے میں مدد ملتی ہے کہ آرمی چیف فیصلہ کر چکے ہیں کہ کنٹرول اپنے ہاتھ میں ہی رکھا جائے اور موجودہ حکومت کو فری ہینڈ نہ دیا جائے۔ اگر معاملہ اس سے مختلف ہوتا تو جنرل ندیم انجم جو پہلے ہی تاحکم ثانی ڈی جی آئی ایس آئی تعینات تھے، اس عہدے پر برقرار رہتے اور جنرل فیصل نصیر کو کسی دوسری جگہ ٹرانسفر کر دیا جاتا۔ جنرل ندیم انجم کی ریٹائرمنٹ اس جانب واضح اشارہ ہے کہ پاک فوج موجودہ حکومت کو فری ہینڈ دینے کے موڈ میں نہیں ہے۔

مزیدخبریں