کچھ عوامل کی وجہ سے اس دفعہ کا صوفی فیسٹیول پچھلے ہونے والے فیسٹیولز سے تھوڑا مختلف تھا۔ ایک چیز تو اس کی جگہ کی تبدیلی تھی۔ اس سے پہلے یہ قذافی سٹیڈیم کے ساتھ منسلک الحمرا کلچرل کمپلیکس میں منعقد کیا جاتا تھا۔ جس کا دلکش ڈیزائن، خوب صورت سٹیج اور وہاں پر نیچے بیٹھنے کا انتظام اس فیسٹیول کو چار چاند لگا دیتے تھے۔ مگر اس دفعہ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے اجازت نہ ملنے کی وجہ سے اس کو پیکجز مال میں منعقد کیا گیا۔ جہاں پر انتظامیہ کی طرف سے سٹیج تھوڑا بہتر بنایا گیا مگر بیٹھنے کے لئے کرسیوں کا انتظام کیا گیا جس سے اتنا لطف نہ آ سکا کیونکہ قوالی اور صوفی موسیقی سننے کا مزا تو سکون سے نیچے بیٹھ کر ہی دوبالا ہوتا ہے۔
پھر الحمرا کلچرل کمپلیکس کا ڈیزائن گولائی میں ہونے اور اس میں سٹیڈیم کی طرح سیڑھیاں ہونے کی وجہ سے سب دیکھنے والوں کے لئے سٹیج کا منظر ایک جیسا دِکھتا تھا۔ جبکہ یہاں پر پیکجز مال میں جو لوگ آگے بیٹھے ہوئے تھے وہ تو باآسانی سٹیج پر پرفارم کرنے والوں کو دیکھ پا رہے تھے مگر جو لوگ پیچھے تھے ان کو بالکل بھی صحیح نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس کے ساتھ اس دفعہ ساؤنڈ کوالٹی کی طرف بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی تھی اور پہلے کی نسبت ساؤنڈ کوالٹی خراب تھی۔
دوسری بات جو اس دفعہ کے فیسٹیول میں مختلف تھی وہ اس کی ٹکٹس حاصل کرنے کا طریقہ کار تھا۔ گذشتہ منعقد ہونے والے فیسٹیولز کے لئے ٹکٹس رفیع پیر تھیٹر انتظامیہ کی طرف سے بتائے گئے دو، تین مقامات سے ایونٹ شروع ہونے سے پہلے اور الحمرا کلچرل کمپلیکس کے باہر سٹال سے فیسٹیول کے دنوں میں خریدے جا سکتے تھے۔ اور اپنی مرضی کے مطابق جتنے دن فیسٹیول میں جانا ہوتا تھا اس حساب سے ٹکٹ خرید لیے جاتے تھے۔
مگر اس دفعہ چونکہ یہ پیکجز مال میں منعقد ہو رہا تھا اس لئے انتظامیہ کی طرف سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اگر آپ پیکجز مال سے پانچ ہزار کی خریداری کریں گے تو ہی آپ کو فیسٹیول کی ٹکٹس ملیں گی۔ اور یہ ٹکٹس ایک فرد کے لئے ہوں گی اور ایونٹ کے تینوں دنوں کے لئے ہوں گی۔ اس سے یہ مسئلہ ہوا کہ اگر کسی نے خریداری نہیں بھی کرنی تھی تو اس کی مجبوری بن گئی اور اگر کسی نے ایک یا دو دن فیسٹیول میں جانا تھا تو اسے بھی پانچ ہزار ہی خرچ کرنا پڑ رہے تھے۔ اس طرح کے فیسٹیول کے ٹکٹس کے لئے ایسی کوئی شرط نہیں ہونی چاہیے۔
تیسری بات جس نے اس ایڈیشن کو پچھلے ایڈیشنز سے منفرد بنایا وہ اس میں عابدہ پروین جی کا اپنے فن کا مظاہرہ کرنا تھا۔ عابدہ جی کے بارے میں گلزار صاحب فرماتے ہیں، "صوفیوں کا کلام گاتے گاتے عابدہ پروین خود صوفی ہو گئی، اُن کی آواز اب عبادت کی آواز لگتی ہے، مولا کو پکارتی ہیں تو لگتا ہے ہاں! ان کی آواز اُس تک ضرور پہنچتی ہو گی، وہ سنتا ہو گا، صدق صداقت کی آواز"۔ اور جب عابدہ جی کو براہِ راست سننے کی دیرینہ خواہش پوری ہوئی تو واقعی لگا کہ ان کی آواز عبادت کی آواز ہے اور جب وہ مولا کو پکار رہی تھیں تو ان کی آواز مولا تک پہنچ رہی تھی اور دل کو چھو کر کسی اور ہی دنیا میں لے کر جا رہی تھی۔ عابدہ جی نے آخری دن ڈیڑھ گھنٹہ پرفارم کیا جو کہ ان کے حساب سے بہت کم وقت تھا اس لئے تشنگی رہ گئی۔ لیکن ایسے بھی لوگ تھے جو بجائے سکون سے سننے کے شور مچاتے رہے، سیٹیاں مارتے رہے، ان کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ شائد وہ عابدہ پروین کو نہیں سن ریے بلکہ کسی پاپ سٹار کے کنسرٹ میں آئے ہوئے ہیں۔
ایک اور روایت جسے ہماری قوم نے اپنا لیا ہے کہ کہیں بھی جائیں گے چاہے کوئی خوب صورت صحت افزا مقام ہو، کوئی ریسٹورنٹ ہو یا کوئی ایونٹ، تو بجائے اس جگہ یا ایونٹ کی روح کو محسوس کرنے کے تصویریں اور ویڈیوز بناتے رہتے ہیں۔ اس فیسٹیول میں بھی یہ دیکھنے کو ملا کہ تینوں دن لوگ ویڈیو بنانے، سیلفیاں لینے میں مصروف نظر آئے۔ اس روایت کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
آخر میں رفیع پیر تھیڑ کی کاوشوں کو سراہا جانا ضروری ہے جو اتنے سالوں سے ہر سال یہ صوفی میوزک فیسٹیول منعقد کرواتے رہے ہیں۔ جو سفر فیضان اور سادان پیرزادہ نے مل کر شروع کیا تھا، فیضان کے چلے جانے کے بعد سادان اسے اسی ولولے کے ساتھ کامیابی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بس ان سے التماس ہے کہ وہ دوبارہ حکومتی نمائندوں سے بات کر کے اس فیسٹیول کو الحمرا کلچرل کمپلیکس یا اس طرح کی کسی جگہ پر منعقد کریں اور ٹکٹس کے لئے کوئی شرط نہ رکھیں تاکہ اس کی انفرادیت قائم رہے اور یہ کمرشلزم کا شکار نہ ہو۔ اور صوفی موسیقی سے شغف رکھنے والے ہم جیسے لوگ اسی طرح اس کی روح کو محسوس کرتے رہیں۔