ریاست اور مذہبی حلقوں کے درمیان اپنی رٹ کی جنگ اب شدید تر ہو گئی ہے۔ اور یہ معاملہ اب بظاہر ایک خوفناک تصادم کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اسلام آباد میں مساجد کے لئے متفقہ ایس او پی پر عمل نہ کرنے کے باعث
لال مسجد انتظامیہ کو نماز جمعہ کا اجتمعا کرانے سے روکا گیا جس کے بعد اب مولانا عبد العزیر کے حقلہ اثر سے ردعمل آنے کا خدشہ ہے۔ معاملے کی تفصیلات کے مطابق صدر مملکت اور جید علماء کے مابین مساجد کے لئے بنائے گئے بیس نکاتی ایس او پی پر عملدرآمد نہ کرنے پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں
لال مسجد میں نماز جمعہ کے اجتماع پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
جبکہ وفاقی پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے
لال مسجد کا سخت محاصرہ کر لیا گیا ہے۔ اس بارے میں
لال مسجد کے ترجمان حافظ احتشام نے بتایا ہے کہ
لال مسجد کا کل سے پولیس نے محاصرہ کیا ہے اور کل بھی کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور آج بھی پولیس کی جانب سے گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ریاست اور علماء کے درمیان جو بیس نکاتی ایجنڈے پر دستخط ہوئے اس کے بعد مولانا عبدالعزیز صاحب نے حکم ماننے سے انکار کیا اور برملا کہا کہ ہم شریعت کے خلاف کسی حکم کو نہیں مانے گے۔ جس کے بعد لال مسجد میں نمازیں معمول کے مطابق ہوتی رہیں۔ مگر گزشتہ روز جیو نیوز سے وابستہ صحافی حامد میر نے صدر عارف علوی کے ساتھ ایک انٹرویو میں
لال مسجد کا نام لئے بغیر سوال کیا تھا کہ اسلام آباد میں ایک مسجد ہے جو ریاست کا حکم نہیں مان رہی۔ جس کے بعد
لال مسجد کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز ہوا اور ریاست نے حامد میر کے انٹرویو کے بعد اس مسئلے پر سنجیدگی سے عمل شروع کیا. انھوں نے مزید کہا کہ
لال مسجد کے اندر اس وقت
مولانا عبدالعزیز اپنے پندرہ ساتھیوں سمیت موجود ہے اور انھوں نے معمول کے مطابق نماز ادا کی۔
حافظ احتشام نے مزید کہا کہ
لال مسجد کا اس وقت پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سخت محاصرہ کیا ہے اور
لال مسجد کے قریب سڑک کو بھی بند کردیا گیا ہے۔
لال مسجد میں موجود ایک معلم نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ مولانا عبدالعزیز نے ملک بھر کے طلباء کو کال دی ہے کہ وہ لال مسجد پہنچیں اور حالات کسی بھی وقت خراب ہوسکتے ہیں۔ اس حوالہ سے جب نمائندہ نیا دور نے ڈی سی اسلام آباد حمزہ شفقات سے رابطہ کیا تو انکی یا انکے ترجمان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ اس حوالے سے معاملات کی خرابی کے بارے میں نیا دور مسلسل نشاندہی کرتا رہا ہے۔
بالخصوص لال مسجد کے حوالے سے نیا دور نے 8 فروری کو خبر دی تھی کہ اسلام آباد کی لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز جوکہ 4 جولائی 2007 کو اسلام آباد کے سیکٹر 6 میں واقع لال مسجد کے خلاف ریاستی کارروائی کے دوران برقع پہن کر مسجد سے فرار ہونے کی ایک ناکام کوشش کے بعد پکڑ لئے گئے تھے 13 برس بعد حکومت کی مرضی کے خلاف مسجد میں دوبارہ داخل ہوگئے ہیں جس سے حالات میں کشیدگی کا خدشہ ہے۔ اسی ضمن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مسجد کا محاصرہ کرلیا تھا۔
28 فروری 2020 کو کرونا کے تناظر میں نیا دور نے خبر دی تھی کہ ریاست نے گھٹنے ٹیک دیے، مولانا عبدالعزیز آج لال مسجد میں نماز جمہ پڑھائیں گے۔ جبکہ اسکے بعد 10 اپریل کو بھی نیا دور کی جانب سے بتایا گیا کہ کس طرح وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود لوگوں نے درجنوں کی تعداد میں نماز جمعہ ادا کی اور اسلام آباد انتظامیہ کے لگائے گئے لاک ڈاون کی دھجیاں اڑا دیں۔ جبکہ مساجد میں سوشل ڈیسٹینسنگ کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔نیا دور میڈیا نے حالات کا جائزہ لینے کے لئے کئی مساجد کا دورہ کیا مگر وہاں نہ صرف لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کی گئی بلکہ شہر میں مساجد کی نگرانی کے لئے پولیس یا دیگر نفری بھی موجود نہیں تھی۔
یاد رہےاس موقع پر کہ جب پوری قوم کی جانیں کرونا کی عالمی وبا کی وجہ سے داؤ پر لگی ہیں، اب تک
مولانا عبدالعزیز نہ صرف ضد، دھونس اور شدت پسندی پر مبنی اپنی سیاست کو قائم رکھنے کے لئے سیاست کی رٹ مسلسل چیلنج کر رہے ہیں اور دوسری جانب سے کسی قسم کا کوئی خاص رد عمل نہیں دیا جا رہا۔