گلا تو اور بھی بہت سے پاکستانیوں کا رندھ گیا ہوگا۔ کیونکہ ہم سب انہی 22 کروڑ میں آتے ہیں جن کی غالب اکثریت مولانا صاحب کے حساب سے انتہائی نکمّی اور بددیانت ہے۔ وہ مزدور جو کئی کئی گھنٹے دھوپ میں اینٹیں اور بوریاں اٹھاتے ہیں، وہ محنتی نہیں ہیں۔ صبح پانچ بجے اٹھ کر سب گھر والوں کے لئے کھانا بنا کر بچوں کو اٹھا کے سکول کے لئے تیار کرنے کے بعد سکول جا کر 2000 روپے مہینہ پر سارا سارا دن کئی کئی سو بچوں کو پڑھانے والی استانی بھی محنتی نہیں ہے۔ وہ لڑکے جو سارا سارا دن بسوں میں دھکے کھاتے ہیں لیکن اپنے کلائنٹ کی پروڈکٹ میں سے کوئی چیز غائب نہیں کرتے، وہ ایماندار نہیں ہیں۔ ایماندار ہے تو وہ حاکمِ وقت کہ جس کے قصیدے مولانا آئے روز ٹی وی پر بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔
پھر بتایا کہ ہماری قوم انتہائی جھوٹی ہے۔ ایک واقعہ سنایا کہ ایک بہت بڑے چینل کے مالک نے ان سے نصیحت کی درخواست کی تو مولانا نے ان کو جواب دیا کہ چینل سے جھوٹ ختم کر دو۔ انہوں نے جواب دیا چینل بند ہو سکتا ہے، جھوٹ نہیں۔ چینل کا نام نہیں بتایا۔ بعد میں ایکسپریس نیوز پر جاوید چودھری نے پوچھا وہ کون سے چینل کے مالک تھے، مولانا نے فرمایا پیٹھ پیچھے بات کرنا غیبت ہوگی۔ پوچھا کہ منہ پر ان کو جھوٹا کہا تھا۔ بولے ایسا کرنا حرام ہوتا۔ یہ چینل کا مالک جو کوئی بھی تھا، اگر تھا تو، یہ صرف ایک میڈیا چینل کا مالک ہوگا۔ مولانا صاحب نے اس کا اور اس کے چینل کا نام نہ بتا کر تمام چینلوں اور پورے میڈیا ہی پر جو الزام لگا دیا ہے، کیا اس حوالے سے کوئی حدیث مولانا کی نظر سے نہیں گزری؟
کرونا سے لڑنے کے انہوں نے چار طریقے بتائے۔ ان میں سے ایک تھا اخلاق اچھے کرنا۔ اور اخلاق کا سب سے اونچا مقام ان کے نزدیک حیا ہے۔ یہاں پہنچ کر ان کا گلا ایک بار پھر رندھ گیا۔ کہنے لگے اب میں کیسے بات کروں؟ میرے دیس میں بے حیائی کون پھیلا رہا ہے؟ یہاں ایک کلپ ملاحظہ کیجئے۔
https://twitter.com/TauseefBaloch14/status/1252304809190993920
یہ بیان حور سے متعلق تھا۔ فرما رہے ہیں کہ حور نے سو جوڑے پہن رکھے ہوں گے، سو جوڑوں میں سے اس کا جسم نظر آ رہا ہوگا۔ یہ صرف ایک بیان ہے، ایسے کئی الفاظ وہ ماضی میں حوروں کے لئے استعمال کرتے آئے ہیں۔
حیرت ہے کہ وہ اب بھی جاننا چاہتے ہیں کہ میرے دیس میں بے حیائی کون پھیلا رہا ہے۔ رہ گیا ان کا یہ سوال کہ دیس میں بیٹیوں کو کون نچا رہا ہے اور ان کے لباس مختصر کون کروا رہا ہے، تو ظاہر ہے کہ جن لوگوں کے جذبات اپنے بیانات کے ذریعے انگیختہ کر کے آپ گھر بھیجتے ہیں، وہ دنیا میں بھی تو حور دیکھنا چاہ سکتے ہیں۔ جس بیانیے کی ترویج آپ کر رہے ہیں، اس کے بعد معاشرے میں بے حیائی پھیلنے پر رونا کیسا؟
مولانا صاحب نے فرمایا کہ جب کسی قوم کی لڑکیاں بے حیائی پر اتر آئیں اور نوجوان بے حیائی پر اتر آئیں تو اللہ وہاں سے اپنی رحمت اٹھا لیتا ہے، سب سے زیادہ عذاب قومِ لوط پر آیا کیونکہ یہ قوم بے حیائی میں تمام حدیں عبور کر گئی تھی۔ مولانا صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ مسلم دنیا میں کرونا نے سب سے زیادہ تباہی ایران میں مچائی ہے۔ وہاں گذشتہ 41 سال سے اسلامی شریعت کا نظام ہے اور اتنا سخت ہے کہ کوئی لڑکی پورے کپڑے پہن کر بھی ڈانس ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دے تو جیل میں ڈال دی جاتی ہے۔ اس کے حق میں کوئی عورت ویڈیو بنائے تو ریاست گرفتار کر کے جیلوں میں رکھتی ہے اور پھر قومی ٹی وی پر معافی منگواتی ہے۔ آخر اس باحیا معاشرے پر اللہ نے کس بات کا عذاب نازل کیا ہے؟ یقیناً مولانا صاحب کے پاس اس کی تاویل ہوگی۔ کہ یہ آزمائش ہے۔ وہ سب کچھ سوچ لیں گے، اس نکتے پر نہیں آئیں گے کہ مائیکرو بیالوجی پر ریسرچ کے لئے زیادہ بجٹ مختص ہونا چاہیے تاکہ ایسے جراثیم کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ بات ان کے علم میں ہی نہیں ہوگی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے دنیا کے بڑے بڑے فارماسوٹیکل انڈسٹریز کے ٹائیکونز کے مفادات کو گزند پہنچے گی اور ریاستوں کو اپنے غیر ترقیاتی منصوبوں کے بجٹ کم کرنا ہوں گے۔ اس طرف آنے سے علما عموماً گریز کرتے ہیں۔
قادسیہ کی جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ اس میں حضرت خالد بن ولیدؓ کے ساتھ 30 ہزار صحابہ تھے اور رستم کا لشکر 3 لاکھ کا تھا۔ حقیقتاً اسلامی لشکر 30 ہزار سپاہیوں اور 8 ہزار گھڑ سواروں پر مشتمل تھا جب کہ رستم کے پاس تقریباً دگنی تعداد تھی۔ اس کے سپاہیوں کی تعداد 50 ہزار، گھڑ سواروں کی تعداد 15 ہزار جب کہ ہاتھیوں کی تعداد 40 تھی۔ بیشک یہ معرکہ اسلامی تاریخ کے عظیم ترین معرکوں میں سے ایک ہے اور حالات جنگ شروع ہونے تک کم از کم نمبرز کی حد تک رستم کے ساتھ تھے لیکن ان کی تعداد دس گنا زیادہ نہیں، دگنی سے کچھ کم تھی۔ یاد رہے کہ اس سے کچھ ہی دیر قبل مولانا نے جھوٹ بولنے کے حوالے سے بھی کچھ فرمایا تھا۔
اس کے بعد مولانا نے دعا شروع کروائی اور روتے ہوئے کہنے لگے کہ اللہ تو نے ہمیں بے حیائی سے روکا، ہماری نسل نے کپڑے اتار دیے۔ نہ جانے مولانا صاحب کن محفلوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں، کم از کم ہم عوام میں نہانے کے علاوہ کپڑے اتارنے کا رواج تاحال راسخ نہیں ہوا ہے۔ پھر فرمایا یہ وبا ویکسینیشن سے نہیں رک سکتی، اسے اللہ تو ہی روک سکتا ہے۔ یہی کاہلی کا سبق ہے جس نے اسلامی معاشروں میں گذشتہ کئی صدیوں سے سائنس دشمنی کی ایک کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ اللہ سے مدد کی درخواست کے ساتھ ویکسین کو بلاوجہ بیچ میں لانے کی کیا ضرورت تھی؟
کچھ اینکرز، خاص طور پر ایک خاتون اینکر کی تو اس دعا کے دوران وہیں گھگھی بندھ گئی۔ ایک صاحب نے ٹوئیٹ کی کہ مولانا طارق جمیل کا گھروں میں نماز ادا کرنے کا بیان پاکستان کی مذہبی تاریخ میں وہی حیثیت رکھتا ہے جو مقام مارٹن لوتھر کنگ کو مسیحیت کی تاریخ میں حاصل ہے۔
مولانا صاحب کا بہت شکریہ کہ انہوں نے یہ بنیادی سی عقل کی بات کی۔ امید ہے ان کے پیروکار اس پر عمل بھی کریں گے۔ لیکن یاد رہے کہ ان سے پہلے اسلامی دنیا کے اور بھی کئی عالمِ دین یہ بات کر چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ قبلہ ایاز، ایک اور رکن خورشید ندیم نیا دور سے بات کرتے ہوئے ہی یہ بات کر چکے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس حوالے سے بہترین سفارشات بھی مرتب کی تھیں جن پر نہ حکومت نے کان دھرا نہ علما نے۔ جاوید احمد غامدی صاحب واشگاف الفاظ میں یہ بات کر چکے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جمعرات کو منظرِ عام پر آنے والے ایک خط میں جو انہوں نے چیف جسٹس کو لکھا ہے بے شمار مذہبی حوالہ جات دیے ہیں جن میں بالکل یہی بات کی گئی ہے۔
یہ کوئی چھوٹے عالمِ دین نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ حکومتوں کے کاسہ لیس نہیں۔ غامدی صاحب نے تو حور کے بارے میں صاف کہہ دیا تھا کہ آپ کی اپنی ہی اہلیہ جنت میں حور کے طور پر آپ کو دی جائیں گی۔ اب ایسے پڑھی لکھی باتیں کرنے والے علما حوروں کے خدوخال بیان کرنے والے مولویوں کی مقبولیت کا مقابلہ تو نہیں کر سکتے۔ کر لیتے، تو اینکر صاحب شاید انہیں بھی کوئی عبید اللہ سندھی یا جورج سپالاٹین وغیرہ قرار دے دیتے۔