پاکستان کو ایرانی گیس پائپ لائن پر دباؤ کا سامنا ہے، جبکہ توانائی کی منتقلی کے حوالے سے خدشات برقرار ہیں

حکام منصوبے کو ترک کرنے کے لئے بڑھتے ہوئے امریکی دباؤ کے تناظر میں ایران-پاکستان گیس پائپ لائن کے قومی توانائی کی سلامتی پر پڑنے والے اثرات کا موازنہ کررہے ہیں۔

12:13 PM, 24 Apr, 2024

ڈائیلاگ ارتھ

اسلام آباد میں وقار زکریا کے گھر کی چھت پر فوٹو وولٹک پینلز کی قطار نصب  ہے جس کے بارے میں ان کے بقول ان کا بجلی کا بل تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ اس کے برعکس گیس کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے۔ دی تھرڈ پول کو ایک کال کے دوران انہوں نے بتایا، ” گیس اک بل ماہانہ 800 روپے  (2.87  امریکی ڈالر) سے،  پچھلے چھ مہینوں میں 4,000 روپے (14.38 امریکی ڈالر)  تک بڑھ گیا ہے”۔ ماحولیاتی مشاورتی فرم ہیگلر بیلی پاکستان کے سربراہ زکریا خوش قسمت ہیں کہ گھر میں گیس کی فراہمی ہے۔ ان کی صورت حال ملک گیر توانائی کے تضاد کو نمایاں کرتی ہے جہاں ایک شعبے میں ترقی دوسرے شعبے میں بحرانوں کی صورت میں رد ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں گیس گھریلو استعمال یعنی گھروں کو گرم رکھنے اور کھانا پکانے کے لئے بڑے پیمانے پر استعمال کی جاتی ہے لیکن ملک بھر میں یہ سہولت تیزی سے نایاب ہوتی جا رہی ہے۔ اس تناظر میں جدھر شہری متبادل زرایع کا رخ کررہے ہیں ادھر ہمیں سوسائٹی میں بڑھتی ہوئی تفاوت بھی نظر آرہی ہے، ایک طرف امیر گھرانے مہنگے پروپین سلنڈر یا بجلی کے چولہوں کا استعمال کررہے ہیں جبکہ غریب لکڑیاں جلا کر اپنی طلب پوری کررہے ہیں ۔

اس وقت کو یاد کرتے ہوئے ،”جب قیمتیں صرف 2  امریکی ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو)” زکریا کہتے ہیں “کاش پاکستان نے 1990 کی دہائی کے اواخر میں  ایرانی گیس درآمد کی ہوتی جب کوئی پابندیاں نہیں لگائی گئی تھیں۔”

زکریا، مجوزہ 2,775 کلومیٹر پائپ لائن کے بارے میں حکمت عملی کے لئے ابتدائی مباحثوں کو یاد کرتے ہیں، جس نے پاکستان کی توانائی کی سپلائی کو براہ راست ایران کے گیس کے وافر ذخائر سے منسلک کرنا تھا۔ طویل المدتی منصوبے کو،  جسے ’امن پائپ لائن‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، جغرافیائی سیاسی دباؤ، ایران پر پابندیوں اور پاکستان کے اندر مالی رکاوٹوں کی وجہ سے خاصی تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔

ایران کے ثابت شدہ قدرتی گیس کے ذخائر، جن کا تخمینہ دسمبر 2021 تک 1,203 ٹریلین کیوبک فٹ (ٹی سی ایف) ہے، روس کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔

اس سال فروری میں، پاکستان کی نگراں حکومت نے 2009 کے معاہدے کی تجدید کا فیصلہ کیا اور، بلوچستان میں ایرانی سرحد سے گوادر تک پہلے مرحلے یعنی 80 کلومیٹر طویل (کل 780 کلومیٹر)  پائپ لائن کی تعمیر کی منظوری دی۔

کراچی میں ایران کے قونصل جنرل حسن نورین کے مطابق، یہ نیٹ ورک پنجاب میں داخل ہونے سے پہلے بلوچستان اور سندھ صوبوں سے گزرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ایران سے پائپ لائن میں یومیہ 750 ملین سے لے کر تقریباً 1 بلین کیوبک فٹ قدرتی گیس تک پہنچانے کی تخمینہ صلاحیت ہوگی۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

دریں اثنا، تہران نے اسلام آباد کو ایک ڈیڈ لائن جاری کر دی ہے کہ مارچ 2024 تک پائپ لائن کے حصے کو ختم کریں یا تقریباً 18 بلین امریکی ڈالر کے مالی نقصانات اٹھائیں- ایک ایسی رقم جو بین الاقوامی ثالثی کا باعث بن سکتی ہے۔

ایرانی قونصل جنرل نے دی تھرڈ پول کو بتایا، “ہم یہ سخت قدم اٹھانے سے ہچکچا رہے ہیں، لیکن ایران کی گیس کمپنی ایک قومی کمپنی ہے اور اس کا تعلق ایرانی عوام سے ہے۔” اس نے ایک سال پہلے 1 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔ اب ایرانی پارلیمنٹ، حکومت پر اس منصوبے کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لئے دباؤ ڈال رہی ہے۔

ایران نے جنوبی پارس گیس فیلڈز سے پاکستان کی سرحد تک 1,100 کلومیٹر پائپ لائن کو مکمل کرکے معاہدے کا اپنا حصہ پورا کرلیا ہے۔ ایرانی سفارت کار نے کہا، “2012 تک، ایران نے اپنی تعمیر مکمل کر لی تھی اور وہ پاکستان کو گیس پہنچانے کے لئے تیار تھا۔” انہوں نے مزید کہا کہ 2014 میں، ایران نے پاکستان کی درخواست پر ڈیڈ لائن میں مزید ایک دہائی کی توسیع کی تھی۔  لیکن پاکستان پر امریکہ کے دباؤ بھی ہے۔ گزشتہ ماہ، جنوبی اور وسطی ایشیا کے لئے  امریکی معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو نے پاکستان کو ایران سے گیس درآمد کرنے کے خلاف خبردار کیا تھا، کیونکہ اس سے اسے امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اس کے جواب میں پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے اسے قومی خودمختاری کا مسئلہ قرار دیا چونکہ پائپ لائن پاکستانی حدود میں بن رہی ہے انہوں نے کہا، “ہمیں نہیں لگتا کہ اس وقت کسی تیسرے فریق کی طرف سے کسی بحث یا چھوٹ کی گنجائش ہے”۔ 

بہر حال، پاکستان میں قائم امریکی مشن کے ترجمان، تھامس مونٹگمری نے تھرڈ پول کو بتایا کہ “ہم ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والوں کو پابندیوں کے ممکنہ خطرے سے آگاہ رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔” امریکہ، اپنی ترقیاتی ایجنسی کے ذریعے، پاکستان پر گرین متبادل تلاش کرنے کے لئے دباؤ ڈال رہا ہے، اس نے 2010 سے پاکستان کے گرڈ میں تقریباً 4,000 میگاواٹ صاف توانائی شامل کرنے میں مدد کی ہے۔

حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ کے سینئر رکن سینیٹر مشاہد حسین سید نے ذاتی حیثیت میں بات کرتے ہوئے قومی خودمختاری اور امریکہ کے درمیان تناؤ پر روشنی ڈالی، “ہم اپنے بنیادی مفادات کے فیصلوں کے لئے اپنی خودمختاری سے دستبردار ہوجاتے ہیں اور ان کو مداخلت کی دعوت دیتے ہیں۔”

اپنے دیرینہ اتحادی کی طرف سے انتباہات کے باوجود، پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ توانائی کے بنیادی ڈھانچے کا منصوبہ آگے بڑھے گا، انہوں نے کہا، “ہم پائپ لائن کی تعمیر کے ساتھ آگے بڑھیں گے”،  یہ پاکستان کی اپنی خودمختاری برقرار رکھنے کا عندیہ  ہے۔ 

پابندیوں پہ استثنیٰ  

جہاں پاکستان ایران کی ڈیڈ لائن سے نمٹ رہا ہے، حکومتی اندرونی ذرائع کے مطابق، گوادر میں تعمیر کے لئے مختص زمین کا حصول ابھی باقی ہے۔

واشنگٹن میں ولسن سینٹر کے ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے اس مسئلے کو اس طرح پیش کرتے ہیں، “پاکستان بظاہر آگے پہاڑ اور پیچھے گہری کھائی کے درمیان پھنس گیا ہے – پائپ لائن بنائیں اور پابندیوں کا خطرہ مول لے، یا اسے نہ بنائیں اور بھاری جرمانے ادا کرے”

نگران حکومت میں سابق وزیر قانون احمد عرفان اسلم، جنہوں نے پائپ لائن کے 80 کلومیٹر حصے کی تعمیر کی منظوری دی تھی، پاکستان  کے “معاشی بیل آؤٹ سے لے کر اس کی سکیورٹی تک ہر چیز کے لئے”  امریکہ پر انحصار کی طرف اشارہ دیتے ہیں۔ 

 پاکستان کے وزیر پٹرولیم مصدق ملک نے گزشتہ ماہ صحافیوں کو بتایا، “ہم امریکی پابندیوں کو برداشت نہیں کر سکتے۔ ہم اپنا موقف امریکہ کے سامنے پیش کریں گے”۔ “ایران کو متعدد بار بتایا گیا ہے کہ ہمیں ان کی گیس کی ضرورت ہے۔ ہم اس منصوبے کو مکمل کرنا چاہتے ہیں لیکن بغیر کسی پابندی کے۔”

منٹگمری نے تصدیق کی کہ پاکستان نے ابھی تک باضابطہ چھوٹ کی درخواست پیش نہیں کی ہے۔  پاکستان ایک مشکل مقام پر کھڑا ہے، ایسے میں اسلم نے تجویز پیش کی کہ ڈیڈ لائن میں توسیع کی کوشش کی جائے اور استثنیٰ حاصل کیا جائے، جس کے لئے “سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دونوں کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔” لیکن اسرائیل-غزہ تنازعہ پر مشرق وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی کے ساتھ، 18 اپریل کو ایران کے خلاف نئی امریکی پابندیوں کا اعلان کے تناظر میں، کوگل مین کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان نہیں کہ امریکہ اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے لئے پاکستان کو پابندیوں میں استثنیٰ دے گا۔

معاشی امکانی جائزہ 

پاکستان کے پاس گیس کے ثابت شدہ ذخائر کا صرف 19.5 ٹریلین کیوبک فٹ ہے جو کہ موجودہ سالانہ کھپت کی بنیاد پر محض مزید 12 سالوں کے لئے کافی ہے۔

انسٹی ٹیوٹ فار انرجی اکنامکس اینڈ فنانشل اینالیسس (آئی ای ای ایف اے) کی انرجی فنانس کی ماہر حنیہ اساد نے کہا، “ایرانی گیس رکھنے کا واحد فائدہ تب  ہے کہ اگر مناسب نرخوں پر مستحکم فراہمی کی ضمانت ہو۔”  اساد کے مطابق، قطری گیس کے موجودہ 13 امریکی ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے معاہدوں  اور اسپاٹ مارکیٹ کی ” 8 امریکی ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو  سے بھی کم” قیمتوں کی موجودگی میں ، اقتصادی طور پر قابل عمل ہونے کے لئے ایران-پاکستان پائپ لائن کو بہتر نرخوں کی پیشکش کی ضرورت ہوگی۔ 

وزیر دفاع آصف نے کہا کہ ہم بین الاقوامی بینکوں سے فنڈز لینے پر غور کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی معیارات کی تعمیل پر زور دیتے ہوئے، انہوں نے کہا، “ہم کسی بین الاقوامی نظام کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔”

تاہم، زکریا نے خبردار کیا کہ سرمایہ کاری کو حاصل کرنا مشکل ثابت ہو سکتا ہے، “ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے نہ تو ترقیاتی مالیاتی ادارے اور نہ ہی مغربی اور مشرق وسطیٰ کے بینک اس منصوبے کے لئے قرضہ دیں گے، جس سے پاکستان کو ایران سے حاصل ہونے والی گیس کی ادائیگی کرنا مشکل ہو جائے گا،” انہوں نے کہا۔

کوگل مین نے کہا کہ پاکستان کے لئے بہترین راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ چین یا کسی اور بیرونی ذریعے کی مالی اعانت سے پائپ لائن بچھاۓ۔ ممکنہ فنڈرز میں روس شامل ہے۔ سید نے دی تھرڈ پول کو بتایا کہ، “روس نے پاکستان-ایران پائپ لائن کے 80 کلومیٹر کے لئے ابتدائی 160 ملین امریکی ڈالر کی فنڈنگ کی پیشکش کی ہے۔” جبکہ ایران کے قونصل جنرل کا کہنا ہے، “ایران پائپ لائن کی تعمیر میں تکنیکی اور انجینئرنگ مدد فراہم کرسکتا ہے۔”

پاکستان کو توانائی کی ایک پیچیدہ منتقلی کا سامنا ہے، جو کہ بڑھتی ہوئی طلب ہے، اور مالیت، قانونی کارروائی اور جغرافیائی سیاسی حرکیات کے فوری چیلنجوں پر مرکوز بات چیت کی زد میں ہے۔ جیسا کہ پاکستان 22 اپریل سے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے تین روزہ سرکاری دورے کی میزبانی کی تیاری کر رہا ہے، اساد، ایرانی گیس کو بطور پاکستان کی توانائی کی ضروریات کا حل دیکھنے سے خبردار کرتی ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ یہ “ایک اور درآمدی جنس ہے اور جغرافیائی سیاسی تحفظات سے مشروط اور تیل کی عالمی قیمتوں سے منسلک ہے۔”

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس کے بجائے ہوا اور شمسی جیسے قابل تجدید ذرائع پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ انہوں نے ایک سٹریٹجک تبدیلی کی تجویز پیش کی جو توانائی کے عالمی رجحانات سے ہم آہنگ ہو۔ لیکن “اگر صنعتی استعمال کے لئے اس کی ضرورت ہے، جیسے کھاد کے شعبے کے لئے، تو ہمیں دوسرے متبادلات جیسے کہ گرین ہائیڈروجن اور امونیا کے معاشی طور پر قابل عمل ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔”

مزیدخبریں