اگر آپ نے ان کی ویڈیو دیکھی ہے تو ان کے چہرے پر دہشت اور وحشت ضرور دیکھی ہو گی۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نہ ارشاد نسرین ٹھیک طرح سے بول پا رہی ہیں، دوسرا انتہائی ڈری ہوئی ہیں۔ اُن کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے ہیں اور کُچھ مرد حضرات اُن سے ابتدائی معلومات لے رہے ہیں تا کہ ارشاد کے ورثہ کو خبر کی جا سکے۔ ارشاد سے جب پوچھا گیا کہ اغوا کاروں کو وہ جانتی ہیں تو اُنھوں نے نفی میں سر ہلایا۔ یہ ویڈیو ایک لمبے عرصے تک میری نیند اُڑانے کے لیے کافی تھی۔
میں ایسی کوئی بھی ویڈیو دیکھ کر ہمیشہ ہی ان تمام واقعات کو اپنے سامنے دوبارہ ہوتا ہوا دیکھتی ہوں جو میں نے اپنے یونیورسٹی کے زمانے میں دیکھے۔ ہمارے ایک استاد بی ایس سی میں اکائونٹس کا مضمون پڑھایا کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ جو جو بی ایس سی کے بعد یونیورسٹی جائے گا صرف وہی عقلی طور پر بالغ ہو جائے گا باقی سب ہمیشہ بچے ہی رہینگے۔ اُس وقت اُن کی بات سمجھ نہیں آئی لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہم یونیورسٹی تک پہنچ گئے۔ یونیورسٹی میں اور یونیورسٹی سے باہر میں نے پاکستانی معاشرے کا وہ سیاہ چہرہ دیکھا جو میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ سے لے کر یونیورسٹی کی بس میں چڑہنے تک ہمارا پیچھا کیا جاتا، اور اترتے وقت بہت سی چمکتی ہوئی ہونڈا ایکورڈ یا کرولا گاڑیاں بس کے ارد گرد منڈلانے لگتیں؛ جو غالباً بس کے آنے کا انتظار کئی گھنٹے پہلے سے کر رہی ہوتی تھیں کہ کب کوئی خاتون بس سے اتر کر اُن کی چمکتی ہوئی گاڑی میں بیٹھ جائے اور وہ اپنی درندگی دکھا سکیں۔
ایسا ایک بار نہیں ہوا بلکہ ہر روز ہوتا تھا۔ آج ارشاد نسرین کی ویڈیو دیکھ کر وہ سارے مکروہ چہرے میری نظروں کے سامنے سے گزرے جن پر روزانہ تھوک کر میں اپنے گھر واپس پہنچتی تھی اور ہر روز ہی خدا کا شکر ادا کرتی تھی کہ اے اللہ ترا شکر آج حفاظت سے گھر پہنچ گئے۔
14 اگست کو جب آپ آزادی کا جشن منا رہے تھے تو ایک خاتون اغواہ ہو رہی تھیں۔ جب ایک وکیل خاتون خود کو اغواہ ہونے سے نہیں بچا سکیں تو سوچیے کہ ایک سکول کالج یا یونیورسٹی جانے والی بچی اپنی حفاظت کیسے کر سکتی ہو گی۔ نا جانے اُن لوگوں نے ارشاد کو زندہ کیسے چھوڑ دیا؟ شاید اس لیے کہ وہ عبرت کا نشان بن جائے اور پھر کوئی عورت وکیل بننے کے بارے میں نہ سوچ سکے۔
دُکھ کی بات یہ ہے کہ ہر پاکستانی لڑکی اور ہر عورت جو گھر سے باہر تعلیم یا روزگار کے لیے نکلتی ہے وہ ہر جگہ ہراساں کی جاتی ہے۔ گھر والوں کو کُچھ نہیں بتاتی کہ اُس کے گھر والے اُسے پڑھائی سے یا روزگار سے روک دینگے۔ کُچھ کالج یونیورسٹیوں میں اساتذہ کے ہاتھوں ہراساں ہوتی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں چند افراد کو چھوڑ کر زیادہ تر مرد حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ جو عورت گھر سے باہر آ گئی اُس کا جسم اب اُس کا نہیں رہا۔ اگر اُس کو عزت چاہیے تو وہ گھر میں بیٹھے۔
ارشاد نسرین بھی ایسی ہی خواتین میں سے ایک ہیں جنھیں صرف عورت ہونے کی سزا دی گئی۔ معاملہ تو ابھی اُن مجرموں کی طرح غیر معلوم ہے اور ہم بار ایسوسیئیشن اور حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ اس معاملے کو کیسے ڈیل کرتے ہیں۔ فی الحال اس ویڈیو کو دیکھ کر خدا را اس نام نہاد مسلمان معاشرے کی گندی نعش سے اُٹھنے والے نعافن کو محسوس کیجیے کہ جس معاشرے میں شادی شدہ، غیر شادی شدہ، کنواری، نا بالغ کسی بھی طرح کی عورت غیر محفوظ ہے وہ چودہ اگست کو کونسی آزادی کا جشن مناتا ہے؟